بیوقوف بادشاہ کی نوازش ۔۔۔۔اور انجام

ایک جھوٹا مکار شخص پار ساؤں کا حلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نسل میں سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آرہا ہوں یہ کہہ کر اس نے بادشاہ کی شان میں ایک بہت ہی اچھا قصیدہ پڑھا بادشاہ قصیدہ سن کر اور اسے عالی نسب اور حاجی یقین کر کے بہت خوش ہوا ، اور خلعت کے علاوہ اسے بہت سا روپیہ بخشا ، لیکن کرنا خدا کایہ ہوا کہ اس مکار کے رخصت ہونے سے پہلے ایک درباری جو سمندری سفر سے واپس آیا تھا دربار میں داخل ہوا ، اور اس شخص کو پہچان کر کہا یہ ہرگز حاجی نہیں ہے ۔ اس کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے ۔ اسے تو حج کے دن میں نے بصریٰ کے بازار میں دیکھا تھا ۔

جب اس کے بارے میں تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ عالی نسب ہونا تو بڑی بات ہے ، یہ مسلمان ہی نہیں ہے ۔ روم کے شہر ملا طبہ کا رہنے والا عیسائی ہے ، اور اس نے جوقصیدہ پڑھا ہے ، وہ مشہور شاعر انوری کا لکھا ہوا ہے یہ حالت جان کر بادشاہ بہت غضب ناک ہوا، اس نے حکم دیااس سے انعامات چھین لئے جائیں اور ذلیل کرکے شہر سے نکال دیا جائے چورکی چوری اور جھوٹے کا جھوٹ ظاہر ہوجائے تو وہ ڈر جاتا ہے ، لیکن اس مکار شخص نے اپنے حواس درست رکھے ، جلدی سے بولا مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے ، میں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا، لیکن اب حضور کی خدمت میں ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی بات سچ نہ ہوگئی بادشاہ نے اس کی یہ بات سن کر کہا اچھا کہہ ، کیا کہتا ہے وہ مکار شخص بولا ! حضور والا ! وہ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے خالی کوئی بھی نہیں ، بلکہ جتنا زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے ،اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے آپ میرے جھوٹ پر بہت خفا ہیں ، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ جھوٹ کی ملاوٹ سے کوئی مال بھی پاک نہیں آپ دہی ہی کی مثال لے لیجئے ، اس میں بھی دو حصے پانی ہے ، اور جھوٹ میں بڑے چھوٹوں کو شکست ہی دیتے آئے ہیں بادشاہ سن کر ہنس پڑا اور کہا بے شک یہ بات ٹھیک ہے ، تو نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ سچی بات کبھی نہ کہی ہوگئی یہ کہہ کر بادشاہ نے حکم دیا اس کے انعامات لوٹا دیئے جائیں ، اورا سے عزت کے ساتھ رخصت کردیا جائے اس جھوٹے مکار شخص نے واضح کیا ہے کہ بادشاہ بھی اسی کی طرح مکار اور جھوٹا ہے ،جہاں ایسے مکار فراڈیے ریاست کا نظام وانصرام چلاتے ہوں وہاں انصاف کی بجائے نوازشیں ہوتی ہیں لڈی پاؤ اورلٹی جاؤ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ،قصہ گو خوشامدی افراد حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں تاکہ بادشاہ ان پر نوازشیں کرے ایسے ماحول میں عام افراد بنیادی حقوق سے محروم رہ جاتے ہیں اورچاپلوس مکار دھوکے باز انعام اکرام بٹورتے نظرآتے ہیں ایسے بیوقوف نوازشی بادشاہوں سے متعلق سعد ی کی دوسری حکایت پڑھنے کے قابل ہے ایک بادشاہ رعیت کی نگہداری سے بے پروا اور بے انصافی اور ظلم پر دلیر تھا اور ان دونوں باتوں کا یہ نتیجہ بر آمد ہو رہا تھا کہ اس کے ملک کے لوگ اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کر رہے تھے ایک دن یہ کم فہم اور ظالم بادشاہ اپنے دربار میں عہدے داروں اور ندیموں کے درمیان بیٹھا فردوسی کی مشہور رزمیہ نظم شاہنامہ سن رہا تھا بادشاہ ضحاک اور فریدوں کا ذکر آیا تو اس نے اپنے وزیر سے سوال کیا کہ آخر ایسا کیوں ہوا کہ ضحاک جیسا بڑا بادشاہ اپنی سلطنت گنوا بیٹھا۔ اور فریدوں ایک بڑا بادشاہ بن گیا۔ جب کہ اس کے پاس نہ لاؤ لشکر تھا اور نہ بڑا خزانہ ؟ اس کا وزیر بہت دانا تھا۔ اس نے ادب سے جواب دیا کہ حضور والا اس کی وجہ یہ تھی کہ فریدوں خلق خدا کا بہی خواہ اور ضحاک لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف سے بے پروا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ ضحاک کو چھوڑ کر فریدوں کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور وہ بادشاہ بن گیا۔ بادشاہی لشکر اور عوام کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ پھر وزیر نے بادشاہ کو نصیحت کی کہ سلطنت قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حضور اپنا رویہّ بدلیں۔ لوگوں کو پریشان اور ہر اساں کرنے کی جگہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ احسان اور انصاف کرنے سے بادشاہ کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی وفادار اور جاں نثار بن جاتے ہیں۔ یہ باتیں خیر خواہی کے جذبے سے کہی گئی تھیں لیکن بادشاہ وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے جیل خانے بھجوا دیا۔ اس نے اپنا رویہّ بدلنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ کچھ ہی دن بعد، کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بادشاہ کے بھائی بھتیجوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور رعایا ان کی طرف دار ہو گئی۔ کیونکہ ہر شخص بے تدبیر بادشاہ کے ظلم سے پریشان تھا۔ سلطنت اور ظلم یک جاہو نہیں سکتے کبھی بھیڑیا بھیڑوں کی رکھوالی پہ کب رکھا گیا ظلم سفا کی پہ جو حاکم بھی ہو جائے دلیر جان لو قصر حکومت اس نے خود ہی ڈھا دیا،مندرجہ بالا حکایت سے اربابِ اقتدار کو سبق حاصل کرنا چاہیے یہ سوچنا چاہیے کہ لوگوں کا بیانیہ کیوں ہمارے خلاف ہے خلق خدا کیوں تبدیلی کا نعرہ بلند کررہی ہے چارسو احتساب کی صدائیں کیوں بلندہورہی ہیں ،آخرکیوں ؟ کیونکہ تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے غریب کے لیے قانون کی تشریح اورمالدار، وڈیرے ،نواب اور سردار کے لیے اور ؟ غریب کو دووقت کا کھانا میسر نہیں ہے اورحکمرانوں کے اربوں روپے سوئس بنکوں میں پڑے ہیں ،غریب کے پاس سرچھپانے کے لیے چھت نہیں ہے حکمران دبئی میں اربوں کی پراپرٹی خرید رہے ہیں ،غریبوں کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں اوراربابِ اقتدار سیرسپاٹے اورمشوروں کے لیے لندن کی یاترا کررہے ہیں ،ریاست اپنے فرائض اس قدر احسن طریقے سے سرانجام دی رہی ہے کہ ریاست کی مشینری نے اپنے زر بینک کھولے ہوئے ہیں ،ویٹرنری ڈاکٹر دورانِ سروس سبز تازہ گھاس فروخت کررہے ہیں ،سرکاری سکول اساتذہ پرائیوٹ اکیڈمیاں اور ڈاکٹرز پرائیوٹ ہسپتال چلارہے ہیں ،واپڈا کے ملازمین لائن مین بھاری بھرکم بل ڈال کرغریبوں کا خون چوس رہے ہیں ،صاف پانی کے نام پر آلودہ پانی برائے فروخت ہے ،عوام کی محافظ پولیس شک کی بنیاد پر لوگوں کی کھال ادھیڑ رہی ہے ۔جاری ہے

YOU MAY ALSO LIKE: