بڑھتی گداگری اسلامی تعلیمات اور حکومتی ذمہ داری

آج کل گداگری کا پیشہ انتہائی مکروہ شکل اختیارکر چکا ہے اچھے بھلے مانس لوگ کاسہء گدائی لیے مارے مارے پھرتے ہیں ، بچوں میں یہ عادت بہت سرایت کر رہی ہے ،آپ کو ہر جگہ ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہی ہوگا جنہوں نے اس مکروہ دھندے کو ذریعہ معاش بنا رکھا ہے ،بہت سی جگہوں پر ایسے گروہوں کا بھی انکشاف ہوا جو معصوم بچوں کو اغوا کرکے ان سے مکروہ دھندہ کرواتے ہیں ،آج سکول سے واپسی راستے کے بیچ میں عورت کو بچے سمیت بھیک مانگتے دیکھ کر دل پسیج گیا ،معصوم بچوں کی تعلیم کی عمر میں قلم کتاب ہاتھ میں تھمانے کی بجائے کاسہء گدائی تھمانا کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔؟اسلام کی روشن تعلیمات اس سلسلہ میں کیا راہنمائی کرتی ہیں مختصراان کو قلم بند کیا جاتا ہے ۔قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واشگاف الفاظ میں ملتی ہے کہ اسلام نے سائل اور مسؤل دونوں کے بارے میں احکامات صادر فرمائے ہیں،

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں گاہے بگاہے مال خرچ کرنے کا ذکر ملتا ہے ’’فی اموالھم حق معلوم للسائل و المحروم ‘‘ ’’ان کے مالوں میں مانگنے والوں اور محروموں کے لیے حق معلوم ہے ‘‘ انفاق فی سبیل اﷲ کے بارے میں ترغیبات کا ایک وسیع میدان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مانگنے والوں کی مذمت کے بارے میں بھی واضح ارشادات موجود ہیں ، مشہور واقعہ ہے کہ آپﷺ ؐ کی مجلس میں ایک مسلمان حاضر ہو کر دست سوال دراز کرتا ہے آپ ؐاس سے پوچھتے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ نہیں ……؟اس نے عرض کی یا رسول اﷲ ! ایک کمبل ہے جس کا آدھا حصہ نیچے بچھا کر باقی آدھا اوپر اوڑھ لیتا ہوں اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی وغیر ہ پیتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا :وہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ ،چنانچہ وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا کون ان کو خریدے گا ……؟ایک صاحب نے کہا میں ان کو دو درھم میں خریدتا ہوں ، چنانچہ آپ ﷺ نے وہ دونوں چیزیں ان کو دیدیں اور درہم لے کر انصاری کو دیدیے اور ان سے کہا ایک درہم کا کھاناگھر پہنچا دواور دوسرے درہم کی ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ چنانچہ وہ لے آئے آپﷺ نے اپنے دست اقدس سے اس میں لکڑی گاڑھی اور فرمایا جاؤ اس سے لکڑی کاٹ کر فروخت کرو پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں چنانچہ جب و ہ دوبارہ آئے جب وہ دوبارہ آئے تو ان کے پاس دس درہم تھے رسول ااﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ ھٰذا خیر لک من ؂ان تجیء والمسئلۃ نکۃۃ فی وجھک یوم القیامۃ‘‘ یہ محنت مزدوری تمھارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم قیامت کے اس حالت میں آؤکہ تمہارا سوال کرنا تمہارے چہرے پر داغ کی صورت میں ظاہر ہو‘‘

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا’’ الکا سب حبیب اﷲ ‘‘ مزدوری کرنے والا اﷲ تعالی کا دوست ہے۔ آپ کا یہ بھی فرمان عالی مقام بھی ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہو نے سے قبل دو۔ اسلام میں اس بے روزگاری و بے کاری جو سستی و کاہلی پیدا ہوتی ہواور انسان باوجود قدرت اکتساب کے کمائی نہیں کرتا واضح حکم موجود ہے کہ حکومت اسلامیہ ایسے لوگوں کی کڑی نگرانی کرے اولاً ان کو وعظ و نصیحت کے ذریعے حلال ذریعہ معاش حاصل کرنے کی ترغیب دے اس کے باوجود اگر کوئی شخص تندرست و توانا ہونے کے باوجود مانگنے کو اپنا وظیفہ بنائے تو حکومت اسلامی ان کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرے ، چنانچہ ابن جوزی حضرت عمر ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ان کی ایک ایسی جماعت سے ملاقات ہوئی جو کہ کام نہیں کرتے تھے ان سے پوچھا آپ کون لوگ ہو……؟انہوں نے کہا متوکلین ۔۔۔اﷲ پر بھروسہ کرنے والے۔۔۔ آپ ؓ نے فرمایا ’’تم لوگ جھوٹ بولتے ہو اس لیے کہ متوکل تو وہ انسان ہے جو زمین میں بیج بو کے اﷲ پر توکل کرے تم میں سے کوئی روزی اور رز ق حلال سے صرف یہ کہہ کر پیچھے نہ ہٹے کہ اے اﷲ مجھے رزق دے دے ،اس لیے کہ تمہیں معلوم ہے کہ سونا چاندی آسمان سے نہیں برسا کرتے اور مزید فرمایا اے فقراء کی جماعت ! اچھائیوں کی طرف سبقت لے جانے کی کوشش کرو اور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو !‘‘ایسے ہی کچھ لوگ جوحج کے موقع پر اپنے ساتھ توشہ نہ لے جاتے تھے اور اپنے آپ کو متوکلین میں شمار کرتے ،لیکن راستے میں جب توشہ ختم ہو جاتا تو لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے جس پر یہ آیات نازل ہو ئیں ’’ وتزودو ا فان خیر الزاد التقوی‘‘ تم اپنا زاد ِراہ ساتھ لے لواس لیے کہ بہترین توشہ تو تقوی ہے‘‘۔ ایک طرف تو اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ بندوں کو روزی کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے دوسری طرف عام مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ گردو پیش مفلوک الحال، غریب اور تنگدست لوگوں پر نظر رکھیں اپنی ضرورت سے زائد مال فقراء و مساکین میں صرف کریں چانچہ مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو اس کو چاہیے کہ وہ ایسے شخص کو دے جس کے پاس سواری نہیں اور جس کے پاس ضرورت سے زائد توشہ ہو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو دے جس کے پاس توشہ نہیں ‘‘۔ اور ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ’’وہ مؤمن نہیں جو خود تو سیر ہو کر کھا ئے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے ‘‘ اسی طرح آپ ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا’’جو شخص مالداروں کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی بھوک یا عدم توجہی کی وجہ سے مر گیا تو ان مالداروں سے اﷲ اور اس کے رسول کا ذمہ بری ہو گیا ‘‘ فقہ کی کتاب ’’الاختیار لتعجیل المختار‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر اس کو کسی نے کھلا پلا دیا تو اوروں سے گناہ ساقط ہو جائے گا ۔اگر کوئی شخص بیمار ، معذور یا اپاہج ہو تو حکومت اسلامی کا فریضہ ہے کہ ایسے لوگوں کی دست گیری کرے ،ان کی صحیح کفایت کرے ، حضرت عمر ؓ کاایک ایسی جماعت پر گزر ہواجو جذام کے مرض میں مبتلا تھے آپ ؓ نے بیت المال سے ان کو اتنا مال دینے کا حکم دیا جس سے ان کی ضروریات پوری ہو سکیں اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ مالدار مالدار سے مالدار ترین بننے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ، غریب کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شریعت کے مقرر کردہ نظام زکوٰۃ پر صحیح معنوں میں عمل نہیں ہو رہاجس کی وجہ سے دولت کا عدم توازن ہے ، مال امراء کے ہاتھوں گردش کر رہا ہے ، اور دوسری طرف رزق حلال کی کمائی سے ایسے لوگ پہلو تہی کر تے دکھائی دیتے ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے صحت مندی سے نوازا ہے ، حکومت وقت پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ صحیح معنوں میں مجبور بے بس اور مفلوک الحال لوگوں کو بیت المال سے فنڈ فراہم کرے اور صحیح تندرست لوگ جو باو جود قدرت کے اکتساب نہیں کرتے ان کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائے اور ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرکے ان کے ہاتھ مزدوری کی طرف بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔اﷲ تعالی ہم سب کو اسلامی تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین )

 

Mufti Tuseef Ahmed
About the Author: Mufti Tuseef Ahmed Read More Articles by Mufti Tuseef Ahmed: 35 Articles with 31583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.