میں جناح ہسپتال سے اﷲہو چوک کی طرف جا رہا تھا۔ دائیں
طرف اشارہ ہے جسے عبور کرکے بی او آر کالونی میں داخل ہوتے ہیں ۔اشارہ کھلا
تھا مگر ٹریفک چل نہیں رہی تھی۔ اشارہ سبز بھی ہو جاتا مگر تھوڑا سا رینگنے
کے سوا کچھ نہ ہوتا۔خدا خدا کرکے چوک میں پہنچا تو دیکھاکہ وہاں سے اﷲہو
چوک تک جانے والی سڑک پوری طرح بند تھی۔ کچھ نوجوان اس پھنسی ہوئی ٹریفک کو
کنٹرول کر رہے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد گنجائش نکلتی تو ایک دو گاڑیاں
اشارہ عبور کرکے آگے چلی جاتیں۔دس منٹ سے زیادہ وقت اشارہ کراس کرنے میں
لگا، مگر اک اور ابتلا کا سامنا تھا۔ یہاں ٹریفک تین لین میں بہت رک رک کر
چل رہی تھی ۔اگلے دس منٹ میں مسئلہ حل ہو گیا۔ایک رکشا سڑک کے بیچ میں خراب
کھڑا تھا۔ شاید پہیہ نکل گیا تھا۔ رکشے کے مالک نے اسے ایک طرف کرنے کی
بجائے اسی حال میں چھوڑ دیا تھا ۔ شاید مرمت کا انتظام کرنے گیا ہو گا۔رکشے
کے ایک طرف صرف موٹر سائیکل گزرنے کی گنجائش تھی۔ دوسری طرف دو گاڑیاں
آسانی سے گزر سکتی تھیں مگر اس جگہ پر ایک پھل فروش نے اپنی ریڑھی کھڑی کی
ہوئی تھی۔ اس ریڑھی والے نے اپنا سامان اس انداز سے پھیلا کر رکھا ہوا تھا
کہ بمشکل ایک گاڑی اسے چھوتی ہوئی گزر سکتی تھی۔ اسے چھونے سے بچانے کے لئے
لوگوں کو بہت آہستگی سے گزرنا پڑتا تھا۔ ریڑھی والا اس قدر بے حس تھا کہ
مزے سے لوگوں کی بے بسی کا مزہ لے رہا تھا۔
اس مشکل سے نکلا تو جی چاہ رہا تھا کہ گاڑی ایک طرف کھڑی کرکے اس کی منت
کروں کہ بھائی کچھ میرے جیسے ان لوگوں پر رحم کرو مگر تلخ تجربوں کی بنا پر
ایسا نہ کر سکا۔چند دن پہلے میں ایک سڑک پر مڑا تو ایک ٹرک ایک بڑے گیٹ کے
سامنے عمودی حالت میں اس طرح کھڑا تھا کہ اس نے ساری سڑک بند کی ہوئی تھی ۔
ٹرک کا ڈرائیور بنیان پہنے ٹرک سے ٹیک لگا کر کسی سے فون پر بات کر رہا تھا
۔ میرے ہارن کی اس نے کوئی پرواہ نہ کی۔ میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا اور
بڑے پیار سے کہا، بھائی تھوڑا راستہ دے دو۔اسے کچھ ناگوار گزرا، چل کر اپنے
ٹرک کے پیچھے آیا۔ ٹرک نے سڑک پر کوئی جگہ نہ چھوڑی تھی۔ اس نے سڑک کے ساتھ
کچی جگہ کا جائزہ لیا اور کہنے لگا۔ ادھر سے نکال لیں ، نکل جائے گی۔انداز
بہت بد تمیزوں جیسا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا گاڑی پیچھے کی اور احتیاط
سے کچے راستے سے گزرنے لگا۔ اس کی آواز پھرآئی۔ گزار لو ،میلی نہیں
ہوتی۔میں کیا کہتا۔بس میرا ایمان اور پختہ ہو گیا کہ ان بے حس لوگوں پر
کلام نرم ونازک ہمیشہ بے اثر ہوتا ہے۔ میں نے تھوڑا سوچ کر پولیس کو15 پر
فون کیا۔ایک بچی ،جو فون اپریٹر تھی، کی آواز سن کر میں نے اسے ساری بات
سمجھائی اور کہا کہ بیٹا کچھ بندے بھجوا دو کہ لوگوں کی مشکل آسان ہو۔چھ
سات منٹ بعد متعلقہ تھانے سے فون آ گیا، انہوں نے صحیح جگہ پوچھی اور گاڑی
بھیج دی۔ امید ہے لوگوں کی مشکل آسان ہو گئی ہو گی۔
پولیس کی بات چلی تو یاد آیا کہ کچھ دن پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ اخبارات
میں آیا تھا۔ ایک کرکٹر نے پولیس کے ایک افسر کی گاڑی کو اوور ٹیک کر لیا۔
اس گستاخی کی پاداش میں پولیس کے اس اعلی افسر نے اس کرکٹر کو تھانے میں
بند کرا دیا۔چونکہ اس کرکٹر کو فوری طور پر میچ کھیلنے پاکستان سے باہر
جانا تھا اس لئے کرکٹ بورڈ کی مداخلت پر اسے رہائی مل گئی ۔ بظاہر یہ ایک
چھوٹا سا واقعہ ہے مگر یہ ہمارے نظام کی بہت سی سماجی اور نفسیاتی کمزوریوں
کو ظاہر کرتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے کرکٹر اگر گاڑی تیز چلا رہا تھا تو پولیس
کے افسر کو اسے ٹریفک پولیس کے سپرد کرنا چاہیئے تھا جو چالان کر لیتی۔ اس
سے زیادہ اس ملک میں تیز رفتاری کی کوئی سزا نہیں۔پولیس افسر کو کس نے یہ
اختیار دیا ہے کہ بغیر کسی معقول وجہ کے کسی شخص کو تھانے میں بند کر دے۔
ظاہر ہے کہ یہ بے لگام اختیار اس کے پاس ہے اور اسے وہ جب چاہے اور جہاں
چاہے استعمال کرتا ہو گا۔ میرا خیال تھا کہ کوئی نا کوئی ادارہ اسے لگام
دینے کے لئے حرکت میں آئے گا۔ مگر بے حسی کی حد ہے کہ اس معاملے میں ذمہ
داروں پراک سکوت مرگ طاری ہے۔
زمینی حقائق کا اگر جائزہ لیں تو نئے آنے والے کرکٹر اور سی ایس ایس کر کے
نئے بھرتی ہونے والے پولیس افسروں کے کچھ انتہائی سنگین سماجی اور نفسیاتی
مسائل ہیں۔ایک تو ملنے والی حادثاتی شہرت انہیں چین نہیں لینے دیتی۔زیادہ
تر کرکٹر لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کامیابی کی صورت میں یکدم ان
کے پاس کثیر رقم آ جاتی ہے۔ ان کا پہلا خواب ایک برق رفتار خوبصورت گاڑی
ہوتی ہے جو وہ فوراً حاصل کرتے ہیں۔جوانی ، ولولہ، پیسے اور ہیرو بننے کا
خمارانہیں چین نہیں لینے دیتا۔ گاڑی چلاتے ہوئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس
کے ٹائر زمیں پر نہ لگیں۔ یہ بات قانون سے ٹکراؤ کا باعث بنتی ہے۔وہ قومی
ہیرو ہونے کا سہارہ لے کر قانون کے محافظوں سے الجھتے ہیں۔ نتیجہ رسوائی کے
سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کرکٹ بورڈ کے ذمہ داروں کو ان کی اخلاقی اور ذہنی
ٹریننگ پر بھی توجہ بھی دینا ہو گی تاکہ مستقبل میں یہ اپنی اور کرکٹ کے
کھیل اور دوسرے کرکٹ سے وابستہ لوگوں کی نیک نامی کا باعث بنیں۔
پولیس کے بارے میری ہمیشہ سے فقط ایک ہی رائے ہے کہ یہ ناقابل اصلاح ہے۔سی
ایس ایس کر کے آنے والے افسروں کو دھن کی بارش اور بے لگام اختیارات چین سے
بیٹھنے ہی نہیں دیتے ۔ پہلے دن ارد گرد پانچ دس گارڈ جو ایک اشارے پر ہر
جائز ناجائز کام کر جاتے ہیں بلکہ ماضی میں جو کرتے رہے ہوں اس کے ثمرات سے
بھی آگاہ کرتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر کاسی لیسی کرنے والے انہیں درجنوں
انہیں گھیر کر انتہائی بلندیوں کے ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ جس بلندی سے اﷲ
ہی گرائے تو گرائے ،عام آدمی کی پہنچ وہاں تک نہیں ہو سکتی۔ اس ملک میں ہر
محکمے میں ایک حد تک حرام خوری جو جائز سمجھی جانے لگی ہے اور جس کے بغیر
اس لڑی میں آپ سجتے ہی نہیں۔ان کے گھروں میں دولت کے انبار بھر دیتی ہے۔
اتنا پیسہ اتنی تعریف اور اس قدر بے لگام اختیارات، انسان نفسیاتی طور پر
نارمل رہ ہی نہیں سکتا۔ یہ اپنے ماضی کے ملنے والوں کوبہت معمولی بلکہ کیڑے
مکوڑے سمجھنے لگتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ یہ سسٹم اس حد تک ان کو بگاڑ دیتا ہے
کہ بعض اپنے باپوں کو پہچاننے سے انکاری نظر آتے ہیں۔تھانے بکتے ہیں اور اس
میں سے ہر شخص کو حصہ بقدر جثہ ملتا ہے۔ بے ایمان وہ جو اپنے روٹین حصے سے
زیادہ مانگتا ہے۔ روٹین کا حرام تو یہ لوگ شیر مادر سمجھ کر اپنا حق جانتے
ہیں۔ آج ایک ایسے احتسابی نظام کی ضرورت ہے کہ کوئی شخص جو اپنی اوقات سے
باہر نکلے فوری شکنجے میں قابو آ جائے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا، قوم کے یہ
بگڑے بچے مزید بگڑتے جائیں گے۔ |