بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ڈیون پیٹرک کیلی 26سال کا سفید فام امریکی تھا جو امریکی ریاست ٹیکساس کے
ایک قصبے میں رہائش پذیر تھا ، اس کا بچپن بھی امریکہ میں گزرا، امریکہ
وزارت دفاع کے مطابق ڈیون کیلی امریکی فضائیہ میں ائیرمین کی حیثیت سے
خدمات انجام دے چکا تھا ، ڈیون نے2010میں امریکی فضائیہ میں شمولیت اختیار
کی تھی ، لیکن چار سا ل بعد ڈیون کو اپنی بیوی اور بچے پر حملہ کرنے کے
الزام میں کورٹ مارشل ہوا جس کی بنیاد پر اسے امریکی فضائیہ سے نکال دیا
گیا، ڈیون نے اتوار کی صبح کالے رنگ کا سوٹ پہنا اور معمول کے مطابق اپنے
قصبے دور چند کلومیٹر دور موجود چرچ میں پہنچ کر اپنے پاس موجود اسلحہ سے
اس وقت اندھا دھند فائرنگ کی جب چرچ میں لوگ مذہبی عبادت میں مصروف تھے ۔
اس افسوسناک واقعہ میں بچوں ، خواتین سمیت 26افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی
ہوئے ۔یہ وہی چرچ تھا جہاں ڈیون مقدس انجیل بھی پڑھاتا رہا ۔ریاست ٹیکساس
کے گورنر گریگ ایبٹ نے اسے ٹیکساس کی تاریخ کا بدترین واقعہ قرار دیا۔
وقوعہ کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک سے باہر تھے اور وہیں سے
انہوں نے اس واقعہ کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے گریز کرتے ہوئے محض اسے
برائی کا عمل قرار دیا ۔البتہ انہوں نے حملہ آور کو ذہنی مریض قرار دیا ہے،
ان کا کہنا ہے ہمارے ملک میں بہت سارے لوگوں کو دماغی مسائل کا سامنا ہے
تاہم اس کا اسلحہ رکھنے کے حق سیکوئی تعلق نہیں ہے،حملہ آور کو شدید ذہنی
مسائل کا سامنا تھا،ان کا کہنا تھا کہ قوم تاریک ادوا ر میں رہ رہی ہے،
انہوں نے وہائٹ ہاؤس اور سرکاری وفاقی عمارتوں پر قومی پرچم کو سرنگوں
رکھنے کا حکم دیا۔اب اسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ جون کے دوسرے عشرے میں
ریاست فلوریڈا میں ہوا ۔ ریاست فلوریڈا کے شہر ایک نائٹ کلب میں ایک تیس
سالہ امریکہ شہری عمرمتین ( جس کے والدین کا تعلق افغانستان سے تھا )نے
نائٹ کلب میں فائرنگ کر کے پچاس سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔جس
وقت یہ فائرنگ کی گئی اس وقت تین سو سے زائد افراد کلب میں موجود تھے ۔
حملہ آور کو پولیس نے مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا ۔ چونکہ حملہ آور چونکہ
مسلمان تھا اور اس کے والدین کا تعلق افغانستان سے تھا باوجود تمام عمر
امریکہ میں زندگی گزارنے کے اس واقعہ کو اسلامی انتہاپسندی سے جوڑ دیا
گیا۔تیسرا واقعہ امریکی ریاست نیواڈا کے شہرلاس ویگاس کا ہے ۔یکم اکتوبر کو
لاس ویگاس میں موسیقی کی محفل کے دوران فائرنگ میں بھی پچاس سے زائد افراد
ہلاک اور پانچ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ۔ یہاں بھی فائرنگ کرنے والے
ملزم کا تعلق امریکہ سے تھا اور وہ اسی معاشرے میں پلا بڑا جسے دنیا سب سے
مہذب ، لبرل اور ترقی یافتہ کے نام سے جانتی ہے ۔حملہ آور64سالہ سفید فام
سٹیفن پیڈاک تھا۔ سٹیفن کا شمار مہنگی ترین جائیداد رکھنے والوں میں ہو تا
تھا اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ اس کلب میں آتا اور جوا
کھیل کر اپنی زندگی کے دن گزار رہاتھا۔اگرچہ داعش نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ
سٹیفن پیڈاک نے حال ہی میں اسلا م قبول کیا اور ان کے کہنے پر یہ حملہ کیا
گیا تاہم پولیس کو دوران تفتیش اس دعوے کے متعلق کوئی سچائی معلوم نہیں ہو
سکی۔یہی وجہ تھی کہ بدترین واقعہ کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ اور دیگر امریکی
انتظامیہ نے اس واقعہ کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے گریز کیا ۔امریکی
تاریخ میں گن فائرنگ کے سینکڑوں واقعات موجود ہیں ۔گن فائرنگ کے واقعات کے
اعدادوشمار جمع کرنے والے ادارے کے مطابق روا ں برس امریکہ میں مختلف
واقعات میں قتل ہونے والوں کی تعداد 12ہزار سے زائد ہو چکی ہے ۔اگر گزشتہ
تین سالوں کے اعداد وشمار جمع کیے جائیں تو امریکہ میں سالانہ فائرنگ سے
ہلاک ہونے والوں کی تعداد 13ہزار سے زائد ہے ۔اسی طرح کے درجنوں واقعات
یورپ میں بھی ہو چکے ہیں جہاں مختلف واقعات میں سینکڑوں افراد کو دہشت گردی
اور تشدد کے واقعات میں ہلاک کر دیا گیا ۔ ان واقعات کو اسلامی دہشت گردی
سے جوڑا جائے یا معاشرتی انتہا پسندی کے ساتھ دونوں صورتوں میں عام لوگوں
کی ہلاکتوں کو کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ پرتشددواقعات امریکی اور یورپی معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور
معاشرتی اقدار کے کھوکھلے پن کو واضح کر رہے ہیں ۔امریکہ دنیا بھر میں دہشت
گردی کو فروغ دینے کے بہت سے منصوبوں پر عمل پیرا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں
امریکی کی حمایت کے ساتھ اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے ۔اسرائیل
کی دہشت گردی کو ہمیشہ امریکہ کی حمایت رہی ہے ۔عراق پر کیمیائی ہتھیاروں
کے جھوٹ الزام نے امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ذریعے حملہ کر دیا اور ایک
پرسکون ملک کو نیست و نابود کر دیا۔اس جنگ میں برطانیہ اور امریکی افواج کی
قیادت میں لاکھوں عراقی مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔لاکھوں بے
گھر ہو کر مہاجروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ملک کا انفراسٹرکچر تباہ
ہو گیا ، شہر قصبے برباد ہو گئے ، لیکن ان سب کے باوجود جب یہ تحقیقات منظر
عام پر آگئیں کہ عراق میں کسی قسم کے کیمیائی ہتھیار موجود نہیں تھے تو
’’سوری‘‘ کہہ کر لاکھوں افراد کے قتل کے جرم کا مداوا کر دیا گیا۔ اس کے
بعد امریکہ ہی کی قیادت میں افغانستان پر حملہ کیا جن ممالک نے اس جنگ میں
غیر جانبدار رہنا چاہا انہیں دھمکیاں دے کر ساتھ ملایا گیا ۔ عراق کی طرح
افغانستان میں بھی اسلحہ و بارود کے ذریعے افغانستان کو کھنڈر بنا دیا گیا
۔ان دونوں جنگوں کے دوران اتحادی افواج نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف
ورزیاں کیں ۔ہسپتال ، عوامی میلے ، عوامی اجتماعات ، شادی سمیت کوئی بھی
جگہ ان اتحادیوں کے حملوں سے محفوظ نہیں رہی ۔ یہی نہیں امریکہ دنیا بھر
میں بارود اور اسلحہ کی تجارت کے ذریعے دنیا کو آگ کے ڈھیر میں تبدیل کرتا
رہا جہاں معمولی سے غلطی بھی دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل جاتی۔ آگ اوربارود
کے اس کاروبار میں امریکہ ہی نہیں بلکہ تمام عالمی طاقتیں ملوث رہی ہیں ۔
ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ دنیا کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر
دیں اور خود کو محفوظ رہ جائیں۔یہ صورتحال امریکہ اور یورپ کی ہے ۔
عالم اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ منسلک کر کے یورپ و امریکہ نے اپنے آپ کو
محفوظ سمجھنا شروع کر دیا ۔ تاہم اس کے اپنے معاشرے میں یہ انتہاپسندی فروغ
پاتی رہی ۔اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دنیا میں دہشت بانٹنے والا امریکہ و
یورپ اندرونی طور پر محفوظ نہیں ۔ اسلحہ کی تجارت سے دنیا محفوظ نہیں رہ
سکتی۔ اگر دنیا کو محفوظ کرنا ہے تو ناانصافی کا خاتمہ کرنا ہو گا ، طاقت
ور اور کمزور کی تفریق کے بغیر تمام ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا ہو
گا۔ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر قبضے کرنے والے ممالک وہ فلسطین ہو کشمیر
ہو یا کوئی اور زمین کا ٹکڑا وہاں سے قابض قوتوں کو نکل کو انسان کو آزادی
سے رہنے کا حق دینا ہوگا۔ دنیا میں جتنا پیسہ اسلحہ کی پیداوار ، خرید و
فروخت پر لگایا جا رہا ہے اسے دنیا سے غربت کے خاتمے ، صحت و تعلیم کی
سہولیات کی فراہمی اور مہاجرین کوزمین فراہم کرنے پر لگایا جائے گا تودنیا
خود بخود محفوظ ہوتی چلی جائے گی ۔ اسلحہ کی خرید و فروخت سے دنیا بارود کے
ڈھیر میں تبدیل ہو رہی ہے اور ایک وقت آئے گا جب ہلکی سی چنگاری بھی اس
دنیا کے بڑے سے بڑے اور طاقتور ممالک کو تباہ وبرباد کر کے رکھ دے گی ۔ یاد
رکھیے!دنیا غیر محفوظ ہے اس محفوظ بنانے کے لیے ہر کسی کو حق دینا ہو گا۔ |