Brian William Haw

Brian Hawایک برطانوی شہری تھا جس نے افغان اور عراق جنگ کے خلاف برطانوی پارلیمنٹ کے باہر مسلسل دس سال تک دھرنادیا۔ برائن امن کا داعی اور جنگ کا مخالف تھا ۔اسے امریکہ اور برطانیہ کی افغانستان اور عراق کے حوالے سے خارجہ پالیسیوں سے اختلاف تھا۔وہ افغانستان اور عراق پر امریکی اور برطانوی حملے کو درست نہیں مانتا تھا ۔ وہ جنگ بندی اور امن چاہتا تھا۔برائن افغانستان اور عراق جنگ کی مخالفت میں لڑتے ہوئے 2011میں کینسر کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ۔

برائن نے اپنے احتجاج کا آغاز2جون 2001میں کیاوہ اکیلا برطانوی پارلیمنٹ کی حدود کے اندر دھرنا دیکر بیٹھ گیا۔ گریٹر لندن اتھارٹی نے اسکے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لاتے ہوئے اسے وہاں سے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔ برائن نے اپنا دھرنا گھاس سے فٹ پاتھ پر منتقل کر دیا اور جنگ مخالف بینرز اور پلے کارڈز فٹ پاتھ کی ریلنگ کے ساتھ ٹانک دیئے ۔ اس جگہ کو اس نے اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا اورمسلسل 10سال (2001سے 2011)تک وہاں بیٹھا رہا۔ رفتہ رفتہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا اور اسکی حمائت میں نہ صرف عام بلکہ خاص لوگ بھی شامل ہو گئے جو اسکے لئے کھانے پینے کا بندوبست بھی کرنے لگے ۔
 
برائن کے احتجاج نے برطانوی پارلیمنٹ میں ہلچل مچا دی ۔اسکے پاس ایک گراموفون بھی تھا جس پر وہ حکومت کی جنگی پالیسیوں پر تنقید کرتا رہتا تھا۔ برائن کے گراموفون سے نکلنے والی مخالفانہ آواز برطانوی حکمرانوں کے کانوں کو گراں گزرنے لگی اورارباب اختیار نے برائن کا دھرنا اورا حتجاج ختم کرانے اور مستقبل میں ایسے کسی احتجاج کو روکنے کیلئے کاروائی کرنے پر غورشروع کردیا۔ اکتوبر 2002میں ویسٹ منسٹر سٹی کونسل نے برائن کے خلاف فٹ پاتھ کو بلاک کرنے کے الزام میں کاروائی کرنا چاہی لیکن ناکام رہی کیونکہ برائن کسی بھی طرح فٹ پاتھ کو بلاک کرنے کا مرتکب نہیں ہورہا تھا ۔ اس نے اپنے تمام بینرز اور پلے کارڈ ریلنگ سے لٹکائے ہوئے تھے جو کسی طرح بھی راہ گیروں کا راستہ روکنے کا سبب نہیں بن رہے تھے۔ 2003میں برطانوی ایوان زیریں ہاؤس آف کامنز کی ایک کمیٹی نے برائن کے معاملے میں انکوائری شروع کی اور سفارشات پیش کیں کہ پارلیمنٹ کی حدود میں اس قسم کا مستقل احتجاج دہشتگردوں کو کاروائی کا موقع فراہم کر سکتا ہے لہذا ایسے احتجاج کو روکنے کیلئے قانون سازی کی جانی چاہیے ۔ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں اس وقت کی برطانوی حکومت نے Serious Organized Crime and Police Act 2005میں دفعہ 132 to 138کا اضافہ کیا اور ان دفعات کے تحت پارلیمنٹ کی حدود اور قرب و جوار میں بلا اجازت عارضی یا مستقل احتجاج پر پابندی عائد کردی ۔ برائن نے اس قانون کے خلاف عدالت سے رجوع کیا ۔ اسکا موقف یہ تھا کہ چونکہ اسکا احتجاج قانون پاس ہونے سے پہلے کا جاری ہے لہذا اس قانون کا اطلاق اسکے احتجا ج پر نہیں ہوتا ۔ابتدائی عدالت نے برائن کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ اسکے حق میں دیالیکن کورٹ آف اپیل نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ حکومت کے حق میں دے دیا۔ جس پر برائن کو مزکورہ قانون کے تحت احتجاج جاری رکھنے کیلئے اجازت کی درخواست دینی پڑی ۔حکومت نے اسکی درخواست مشروط طور پر منظور کر لی ۔برائن نے حکومتی شرائط کو پورا کرتے ہوئے دھرنے کو جاری رکھاجو 2011میں اسکی موت تک جاری رہا۔اس دھرنے کو جاری رکھنے کی قانونی جنگ میں برائن گرفتار بھی ہوا اور زخمی بھی لیکن تمام مشکلات کے باوجود وہ اپنی جگہ سے نہ ہلا۔

برائن ایک عام آدمی تھا ۔ اس نے دس سال تک مسلسل احتجاج کیالیکن کسی قانون شکنی کا مرتکب نہ ہوا ۔ وہ دس سال تک فٹ پاتھ پر دھرنا دیکر بیٹھا رہا لیکن راہ گیروں کیلئے کسی تکلیف کا باعث نہ بنا۔ نہ تو اس نے فٹ پاتھ کو بلاک کرکے لوگوں کا وہاں سے گزرنا مشکل کیا اور نہ ہی انکے فٹ پاتھ کو استعمال کرنے کے حق کو متا ثر کیا ۔اس نے حکومت کے خلاف احتجاج کا اپنا حق استعمال کیا لیکن دوسروں کے حقوق کو پامال نہیں کیا۔ اس نے اپنی رائے کااظہار کیا اور دوسروں کی رائے کا احترام کیا۔ وہ اپنے خلاف ہونے والی قانونی کاروائی کے دوران ہر تاریخ پر عدالت میں باقاعدگی سے حاضر ہوتا رہا اور ہر قانونی حکم پر عمل کرتا رہا ۔

برائن جیسے عام آدمی کا قد ہمارے ہاں کے ان بہت سارے خاص آدمیوں کے قد سے کتنا اونچا نظر آتا ہے جو احتجاج کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں دوسروں کے حقوق کو پامال کرنے کا کوئی حق حا صل نہیں۔ وہ اپنے جلسے ، جلوسوں، ہڑتالوں اور دھرنوں کی وجہ سے شہر ی زندگی کا پہیہ جام کر دیتے ہیں نہ کوئی وقت پر کام پہ پہنچ پاتا ہے اور نہ ہسپتال ۔ وی آئی پی گزر رہا ہو تو سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں اور گھنٹوں ٹریفک جام ہو جاتی ہے کتنے مریض اب تک ٹریفک میں پھنس کر بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ۔ ہمیں اپنے حق کا استعمال اور دوسروں کے حق کا احترام برائن جیسے لوگوں سے سیکھنا چاہیے ۔

قانون کہتا ہے کہ ہر حق کے ساتھ ایک فرض جڑا ہوتا ہے ۔ ہم اپنے حق کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن اس سے جڑے ہوئے فرض کو نہ ہی جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو نظر انداز کرتے ہیں ۔ ہمیں اس سوچ اس کلچر کو بدلنا ہوگا ۔ اگر حق چاہیے تو اس سے جڑا فرض بھی ادا کرنا ہوگا۔ اپنے حق کا تحفظ چاہتے ہیں تو دوسرے کے حق کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اسی طرح باہمی حقوق و فرائض اور احترام و برداشت کا کلچر جنم لے گااور اسی سے ملک میں قانون کی حکمرانی کا خواب پورا ہوگا۔

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 22470 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.