تعلیم ملک کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتی ہے، اگر کسی ملک کاتعلیمی نظام مشکل کا شکار ہو اور وہاں پر تعلیم کو
اہمیت نہ دی جا رہی ہو تو پسماندگی ناگزیر ہو جاتی ہے ہمارے ملک کا حال بھی
کچھ اسی طرح کا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے عدم تحفظ اور بے توجہی کا شکار
ہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے لاہور کے علاقہ کاہنہ میں تعمیر شدہ گرلز سکول کی
عمارت آج تک بحال نہیں ہو سکی۔بتاتا چلوں اس سکول کے لئے میاں شہباز شریف
صاحب نے چند دنوں کا ٹائم کنٹریکٹرز کو دیا تھا ۔اور ایسا ہی ہوا سکول کی
عمارت دئیے گئے ٹائم پر مکمل کر لی گئی مگر افسوس صد افسوس محکمہ تعلیم پر
کہ تعلیمی اداروں کے افسران پر جن عدم توجہی کی وجہ سے یہ عمارت سکول نہ بن
سکی ۔اور جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں نے تعلیم حاصل کرنے آنا تھا وہاں گدھے ،اور
نشئیوں کے ڈیرے نظر آتے ہے،ویسے تو یہ عمارت خوشی اور غمی کے لئے کا فی
سہولت مہیا کر رہی ہے۔مقامی جنرل کونسلر ذولفقار اقبال قریشی سے ملاقات کا
موقع ملا تو پتہ چلا مقامی قیادت اس عمارت کو سکول کا درجہ دینے کے لئے کا
فی سرگرم ہے اور کافی کوشش کر بھی چکی ہے ۔ اگر ہم سرکاری اداروں پر توجہ
دیں اور انہیں تمام سہولیات فراہم کر لے اور معیار تعلیم کو بہتر سے بہتر
بنانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھائے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے ہر
باشعور شخص اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ، اگر شدت پسندی اور انتہا پسندی کو
شکست دینی ہے تو تعلیم کو فروغ دینا ہوگا مگر پاکستان کے تعلیمی نظام کو
دیکھیں تو ادارے قبرستان کا منظر پیش کر رہے کیونکہ جب ہم علم و عقل و شعور
نہ رکھنے والوں کو وزارت تعلیم جیسی اہم وزارت پر فائز کردینگے تو تعلیمی
اداروں کی زبوں حالی کوء حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں وزارت
تعلیم ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے جو خود تعلیم کے دشمن اور تعلیم کی اہمیت
سے ناواقف ہوتے اور اپنی وزارت کا فائدہ اٹھاتے ہوے تعلیمی اداروں میں اپنی
صفت جیسے لوگوں کو سفارشوں پر بھرتی کر کے پاکستان کے مستقبل کے معماروں کے
مستقبل سے کھیلتے ہیں اور انھیں اندھیروں میں دھکیلتے ہیں.اگر پاکستان کے
صرف ایک صوبے پنجاب کے تعلیمی نظام کا جائزہ لیا جاے تو اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح سے وطن کے معماروں کے ساتھ کس درجے کی
غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں دیگر ممالک اپنے نوجوانوں کو آی ٹی اور دیگر
شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بیش بہا مواقع فراہم کرہے ا علی تعلیم
حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے وزارت تعلیم میں موجود کرپٹ مافیا کو نکالیں جو
بڑے عہدوں پر ہیں اور گھر بیٹھے بھاری تنخواہ وصول کررہے ہیں جب اساتذہ ہی
ریگولر نہیں ہونگے تو طلب امتحانات میں نقل ہی کرینگے ایسے اساتذہ کی وجہ
سے معاشرے میں نقل کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے لیے سب سے پہلے
اساتذہ کو پابند کرنا ہوگا ہمارے تعلیمی ادارے انہی وجوہات کی وجہ سے زبوں
حالی کا شکار ہیں تعلیم ،سیکھنا ،اس پرْ مشقت راستے کا نام ہے جس پہ چل کر
ہی کامیابی اور خوشحالی قدم چومتی ہے ،ہر انسان کے ہاں کامیابی کے جس طرح
مختلف معیار اور پیمانے ہوتے ہیں،ویسے ہی سیکھنے اورعلم حاصل کرنے کے مختلف
میدان اور شعبے ہوتے ہیں ،لیکن تعلیم کے ہر شعبہ میں یکسانیت ناگزیر ہے ،اگر
تعلیم اور تعلیمی اداروں میں طبقاتی تفریق ہو تو وہاں سے پڑھ کر سماج میں
آنے والی نوجوان نسل بھی ایک غیر متوازن اور غیر ہم آہنگ سوچ وفکر کی حامل
ہوگی ،جب کہ متوازن اور یکساں نظام تعلیم کے ذریعے بلند افکار اور یکسو
نوجوان نسل وجود میں آتی ہے جو قوم کی قیادت کی نہ صرف اہل ہوتی ہے بلکہ
اقوام عالم میں قوم و ملت کا سر فخر سے بلند کرنے کا باعث بھی ہوتی
ہے۔بلاشبہ تعلیم اور درسگاہ کی تربیت سماج پر براہ راست اثر اندا زہوتی ہے
،قوموں کی خوشحالی و بدحالی ،عروج وزوال کا درسگاہ ،تعلیم اور معلّم کے
ساتھ براہ راست تعلق ہے نوجوانوں کو عام تعلیم اور فنی تعلیم کی سہولتیں
ضرورت کے مطابق حاصل نہیں ہیں اگر ہیں بھی تو بساط وقوت سے بہت دور ،جب کہ
درس گاہ میں طلبہ کوحصول علم کے ساتھ ساتھ بہتر اخلاقی تربیت کی تربیت نا
پید ہو چکی ہے ،ہمارے کالجز اور یونیورسٹیاں اپنے حقیقی مقصد سے کوسوں دور
محض ڈگریاں تقسیم کرنے والے اداروں کیسی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ غریب عوام
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں جبکہ سرکاری
تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔نظامت تعلیمات ایک یتیم ادارہ بن
چکا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں،بھاری بھرکم تنخواہوں سے لطف اندوز ہونے
والے اساتذہ کے خود اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے اور ان کی عدم
توجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں۔مگر پہلے یہاں یہ بات قابل
ذکر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اساتذہ کرام ہمارے ملک و قوم کا سرمایہ
ہیں جو اپنی محنت شاقہ سے اس قوم میں فروغ تعلیم کے لئے مصروف عمل ہیں۔جو
اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اس قوم کی تربیت میں مسلسل کوشاں ہیں اور ان کی
دیانتداری پر کسی کوذرہ برابر بھی شک نہیں۔ اور شک ہو بھی کیسے کہ استاد کے
بغیر تو ہمارا روحانی وجود ممکن نہیں۔ میرا لکھنا ، آپ کا پڑھنا ممکن نہیں۔
جو نہایت ہی فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی درست معنوں میں نبھا رہے
ہیں۔اور ان کی جتنی حوصلہ افزائی کی جائے کم ہے۔کرپشن شاید ہماری رگوں میں
رچ بس چکی ہے ، چند لوگوں پر مشتمل ایک طبقہ جو اس مقدس پیشے کو پامال کر
رہا ہے ، نہ صر ف پامال کر رہا ہے، بلکہ اس مہذب پیشے کی توہین کر رہا ہے۔
یہ ان اساتذہ پر مشتمل ہے جو چند روپوں ، لالچ و حرص کے پیش نظر اپنے فرائض
منصبی کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ اساتذہ کی یہ غیر معمولی لاپرواہی ایک طرف تو
طلبہ وطالبات کے لئے مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ ایسا طبقہ عدم توجہ کے باعث
طالب علموں میں حقیقی جوہر تلاش کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ استاد ہی وہ ایک
منفرد آنکھ رکھتا ہے اور اس خداداد اوصاف کا مالک ہوتا ہے جو طالب علموں
میں جوہر تلاش کر کے اس کی درست معنوں میں تربیت کر سکے اور ایک مہذب قوم
کی تشکیل کے لئے معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اساتذہ کی طرف سے یہ
لاپرواہی ایک غیر محسوس طریقہ سے تعلیمی نظام میں ایک ایسا چھید کر رہی ہے
جو ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ کے لئے خطرے کا باعث بھی ہو سکتاہے۔ |