آپ کی بیٹی کب ٹھکرائی جاتی ہے؟ سبق آموز واقعہ

کل رات میں اپنی ایک کالج کے دور کی دوست سے بات کر رہی تھی۔ وہ بہت اداس اور مایوس تھی۔ اس کی مایوسی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا کسی جگہ رشتہ نہیں ہو رہا تھا۔ جو بھی رشتے کے لئے آتا تو قد، رنگت، گھر کے محل وقوع جیسے فضول بہانے بنا کر (جس طرح معاشرے میں ہو رہا) رشتہ مسترد کر کے چلا جاتا۔

مجھے اس کے ساتھ بہت ہمدردی ہوئی اس کا دکھ محسوس کر سکتی تھی۔ خیر میں نے اس کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ اسے حوصلہ دیا مگر وہ مسلسل روہانسی اور اداس ہو رہی تھی۔ میں نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے بات کو بدل دیا۔ اور اس کے بھائی کے بارے میں پوچھنے لگی جو آرمی میں میجر ہیں۔ باتوں باتوں میں میں نے پوچھا کیا تمہارے بھائی کا کیا تمہارے بھائی کا رشتہ ہو گیا کہیں؟

اس کا یکدم سے انداز بدل گیا اور بولی کدھر؟ کوئی کام کی لڑکی ملی ہی نہیں۔ کل ایک ڈاکٹر کو دیکھنے گئے لیکن اس کا قد ہی کم تھا بھائی کے ساتھ میچ ہی نہیں کرتا تھا۔ اوپر سے ان کا گھر بھی گندا تھا۔ وہ بھائی کے ساتھ میچ نہیں کرتی۔ وہ میجر ہے یار لڑکی اس کے لیول کی ہونی چاہیے۔ تھک گئے ہیں رشتے دیکھ دیکھ کر۔

مجھے حیرانی کے عالم میں کچھ دیر پہلے کی باتیں یاد آ رہی تھیں۔ آج کل ہر گھر کا یہی المیہ ہے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کے لئے تو فکر مند ہوتے۔ لیکن دوسروں کی بیٹیوں کے نقص نکال کر ٹھکرا دیتے ہیں۔ جب تک دوسروں کی بیٹیوں کو عزت اور اہمیت دینا نہیں سیکھیں گے تب تک معاشرے میں کسی مثبت تبدیلی کی توقع نہیں۔

(فیس بک پوسٹ)

YOU MAY ALSO LIKE: