ربیع الاول کی آمد ہو چکی ہے ملک پاکستان کا گلی گلی کوچا
کوچا بس چراغاں ہی چراغاں ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ سب جائز ہے ؟
کیا یہ سب دینِ اسلام کا حصہ ہے؟ کیا یہ مخلوط جلوس ملکی کاروبار بند کرنا
مواصلاتی نظام باہم روابط کے نظام کو بند کرنا اور عوام الناس کو تکلیف
دینا کسی بھی مذہب میں جائز ہے؟
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم
نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ( سپارہ ٦)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آج میں نے تمھارے لئے دین کو مکمل کردیا اپنی نعمت
تمھارے واسطے پوری کردی اور تمھارے لئے دینِ اسلام کو پسند کیا۔
یہ آیات الوادعی حج کو موقع پر نازل ہوئی خطبہ حج کے آخر میں رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے پوچھا کیا میں اللہ کا تم تک ہینچادیا؟ بیک
آواز سب نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دینِ اسلام
پہنچانے کا حق ادا کردیا۔
اس بات پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے دین اسلام کا ایک ایک مسئلہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا دیا ہے حلال و حرام جائز ناجائز سب کا سب کتاب
اللہ و سنت رسول اللہ کی شکل میں موجود ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ نعوذ باللہ
اللہ کے رسول نے یہ مسئلہ نہیں سکھایا تو میرے نزدیک ایسا کہنے والا دینِ
اسلام سے خارج ہے۔
تکمیلِ دین کی آیات کے نزول کا سن کر ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ
سے کہا اگر یہ آیات ہمارے مذہب میں نازل ہوتی تو اس دن کو ہم ایک تہوار کے
طور ہر مناتے حضرت جواب میں کہنے لگے جس دن یہ آیات نازل ہوئی وہ جمعہ اور
عرفات کا دن تھا یعنی ہمیں اضافی تہواروں کی ضرورت نہیں ہے جو اللہ کی نبی
صلی اللہ وسلم دین سکھایا وہی کافی ہے دین میں اضافہ کرنے کی ہمیں قطعی
اجازت نہیں ہے
اب ہم دیکھتے ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یا ابوبکر صدیق سے
لے کر انس ابن مالک سلمان فارسی تک کسی صحابی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے
میلاد منایا؟
حدیث کی تمام کتابیں تاریخ کی تمام داستانیں اٹھا کر دیکھ لیں خیرالقرون
میں کسی نے بھی یہ کام کسی بھی درجے میں نہیں کئے۔ نہ ہی حضرات تابعین کی
زندگیوں میں یہ تمام کام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
جب دینِ اسلام کے اولین حضرات نے یہ کام نہیں کئے تو کس منہ سے ہم ان
کرتوتوں کو جائز کہیں اور دین کا حصہ قرار دیں۔
خود بریلوی حضرات کے سمجھدار علماء فرماتے ہیں آج کل کے یہ تمام کرتوت کسی
بھی طرح دین کا حصہ نہیں ہے نہ ہی ہو سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ١٢ ربیع الاول یومِ ولادت کے حوالے سے پکی بات بھی نہیں ہے
علامہ ابن کثیر ، علامہ زاہد الکوثری صاحبِ سمیت بڑے بڑے مفسرین محدثین
فقھاء اور مؤرخین اور بانی بریلویت احمد رضا خان بریلوی صاحب لکھتے ہیں
جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت ٩ ربیع الاول ہے ۔
ولادت کی تاریخ میں اختلاف ہے جب کی تاریخ وصال میں کسی کا بھی اختلاف نہیں
ہے سب کے سب کہتے ہیں ١٢ ربیع الاول ہی یوم وفات ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو پھر
کیوں یومِ وفات پر یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ کیا کوئی بھی سلیم العقل اس کو
ماننے کے لئے تیار ہے؟
عشق رسول یہ ہے کہ ہم سنتوں پر عمل کریں اللہ کے احکامات کے مطابق زندگی
بسر کریں جو کام کرنے کے ہیں وہ ہم نے نہیں کرنے اور بدعات و خرافات میں
اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔
کیا ہم شادی کے تقریب میں سنت لباس پگڑی پہن کر جاتے ہیں نہیں جی ہاں ہر گز
نہیں کیوں کہ لوگ باتیں کرتے ہیں کیا میرے چہرے پر داڑھی سنت کے مطابق ہے؟
کیا میری صبح میرا شام میرا دن میری رات میرا کھانا پینا گھر باہر محفل
مجلس جلوت خلوت سنت کے مطابق ہے؟ نہیں جی ہاں ہر گز نہیں تو کیا ایک دن یہ
سب کام عشقِ رسول ہے؟ اپنے ذہن کو فرقہ واریت سے پاک کر کے اور اللہ کو
سامنے جان کر ذہن میں یہ بات رکھیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آج دنیا
میں موجود ہوتے ہمارے درمیان ہوتے کیا ہمیں اس کی اجزت دیتے؟ |