کراچی کے باسیوں ‘ ملک کے مختلف شہروں اور بیرونی ممالک
سے کراچی آنے والے سبزی خوروں کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ اب انہیں کراچی کے
راجدھانی ریستوران میں انہیں بہترین ذائقوں پر مشتمل سبزیوں کے پکوان میسر
ہیں۔
راجدھانی کی راجھستانی اور گجراتی ثقافت کی عکاس اورسادہ آرائش یہاں آنے
والے صارفین کو گرمجوشی سے خوش آمدید کہتی نظر آتی ہے ۔چوکور میزوں کے
اُوپر لیمپ اور اطراف میں خوبصورت اور آرام دہ سیٹیاںاور کرسیاں نہایت
نفاست کے ساتھ سجائی گئی ہیں ۔ ریسٹورنٹ کی دیواروں پر تصاویر کے ذریعے
راجھستان کی منظرکشی کی گئی ہے ۔ریستوران کی اندرونی آرائش ہاون دستوں ‘
مٹی کے برتن اور راجھستانی زیورات پر مشتمل ہے ‘میزوں پر بچھے نارنجی رنگ
کے میز پوش اور ہرے رومال ریستوران کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہیں۔
ہم جب ریستوران پر پہنچے اور آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے تو چوغے اور پگڑی میں
ملبوس بیرا سموارلئے ہمارے ہاتھ دھلوانے آ پہنچا ۔اس سارے منظر نامے نے
ہمیں راجھستانی رنگ میں ڈھال دیا ‘جہاںمہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی جاتی‘بعد ازاں ہمیں اسٹیل کے گلاسوں میں ”چھاس “پیش کی گئی ۔
تھوڑی دیر کے بعد راجدھانی کے منیجر نے ہمیں ریستوران کی تفصیلات سے آگاہ
کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے ریستوران کا بنیادی مینو روزانہ تبدیل کیا جاتا
ہے جب کہ ہمراہ پیش کئے جانے والے سلاد اور اچار وہی رہتے ہیں۔اُن کا مینو
726پکوانوں پر مشتمل ہے اور اسی مینو میں سے ہمارے لئے کھانوں کا انتخاب
کیا گیا تھا ۔ اسی اثناءمیں بیرا انفرادی جگمگاتی ہوئی‘ خالی پیالیوں پر
مشتمل تھالیوں سمیت حاضر ہوگیا ۔بیرے نے فوراً ہی خستہ بیکنری پاپڑ لاکر
ہماری تھالیوں پر رکھ دیا‘اس کے ہمراہ تین طرح کے اچار بھی تھے جس میں ایک
کنڈا ٹماٹو جو پیاز اور ٹماٹر سے تیار کیا جاتا ہے ‘ گوبھی سے بنایا جانے
والا سمبھارو اور گجراتی اچار جو کچے آموں اور لیموﺅں پر مشتمل ہوتاہے‘
شامل تھے۔ یہ تمام اجزاءکھانوں کے ذائقوں میں اضافے کا باعث تھے۔
اس دن کے مینو میں بطور اسٹارٹر روا ڈھکولا اور آلو والے پنجابی سموسے شامل
تھے ۔ دونوں نہایت لذیذ اور مزے دار تھے‘ بالخصوص ڈھوکلے جنہیں کچھ لوگ
ڈھوکرے بھی کہتے ہیں۔جن لوگوں نے کبھی ڈھوکرے نہیں کھائے انہیں بتاتے چلیں
کہ ڈھوکرے بیسن سے بھاپ میں تیار کئے جانے والے نرم کیک ہوتے ہیں۔ ہماری
خوش قسمتی سے ہم جس دن ریستوران گئے ‘اس دن کے مینیو میں ڈھوکرے شامل
تھے۔ڈھوکرے پکانے کے لئے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر مخصوص مہارت
حاصل نہ ہو تو ان کا اصل ذائقہ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں پیش کئے گئے
ڈھوکرے نہایت نرم تھے جو منہ میں رکھتے ہی گھل ُرہے تھے ‘جو تیار کرنے والے
شیف کی مہارت کا ثبوت تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ریستوران کے مالک نے بتایا کہ ریستوران کے
معیار اور یہاں کے صارفین تک اصل راجھستانی ذائقے پہنچانے کے لئے کہ ہم نے
بطور شیف راجھستانی خواتین کی خدمات حاصل کی تھیں‘ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک
گجراتی منیجررکھا گیا جو تمام کھانوں کو چکھ کر ان کے ذائقے کے مستند ہونے
کی تصدیق کرتا ۔ میں نے خود راجھستان جاکر کھانوں مستند تراکیب حاصل کیں
تاکہ ہم اپنے صارفین کی بہتر خدمت کرسکیں۔
ہماری تھالیوں پر پہنچنے والا دوسرا پکوان ”بھاﺅناگری بھریلا مرچا“ اور اس
کے ساتھ لال اور ہری مرچوں کی چٹنیاں تھیں۔”مرچا“ بھری ہوئی ہری مرچیں ہیں
جن میں خلاف توقع بالکل بھی تیزی نہیں تھی بلکہ ان کا کھٹا ّسا ذائقہ تھا ۔
اس کے بعد ہمارے اصل کھانے کی باری آئی‘بیرے نے سونف والا رینگنا بٹاٹا ‘
بند گوبھی اور پنیر کی بھرجی ‘ مصالحہ توری ‘ پنیر کوفتہ مکھنی اور مرغ
ہانڈی سے ہماری پیالیاں بھر دیں۔گوشت کھانے کے شائقین کے لئے ریستوران کے
مینیو میں خاص طور پر روزانہ کوئی نہ کوئی گوشت سے بنا ہوا کھانا بھی شامل
ہوتا ہے۔ ہمیں پیش کیا جانے والا تمام کھانا نہایت لذیذ تھا ‘ اس میں نہ
زیادہ مصالحے شامل کئے گئے تھے اور نہ ہی یہ زیادہ مرغن تھے ۔ ان سارے
کھانوں میں پنیر کوفتہ مکھنی اور مرغ ہانڈی کا ذائقہ لاجو اب تھا۔ ان
اجزاءکے ہمراہ دیسی گھی میں ڈبوئے ‘تازہ بنے ہوئے نرم پھلکے پیش کئے گئے
‘تاہم اگر کوئی دیسی گھی کھانا پسند نہیں کرتا تو اس کی فرمائش پر اسے بغیر
گھی کے پھلکے پیش کئے جاتے ہیں۔بعد ازاں پوریاں اورمٹر کے ہمراہ اُبلے ہوئے
چاول پیش کئے گئے جنہیں مینو میں مٹر پلاﺅ کا نام دیا گیاتھا‘علاوہ ازیں دو
طرح کی دالوں میں سے بھی انتخاب کا موقع دیا گیا ‘ تھالی بغیر دال اور وہ
بھی مصالحے دار دال کے کیسے مکمل ہوسکتی ہے ‘تاہم پیش کی جانے والی گجراتی
دال کھٹے ّاور میٹھے ذائقے پر مشتمل تھی۔اس کے بعد گٹے کی کڑھی بھی پیش کی
گئی جو کڑھی اور بیسن کی تلی ہوئی پٹیوں پر مشتمل تھی۔ کڑھی کے شائقین کے
لئے یہ کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔میٹھے میں نہایت خوش ذائقہ سیب کی کھیر پیش
کی گئی۔
انتہائی خوبصورت ماحول میں نہایت مزے دار اور مناسب قیمت پر دستیاب کھانوں
کے لئے راجدھانی کا انتخاب بہترین ہے۔ |