کوٹہ سسٹم میں کیا خرابیاں ہیں؟

آزادکشمیر 4 ملین آبادی کاچھوٹا ساخطہ ہے لیکن عجیب طرز کی حکمرانی اور مخصوص سوچ کی کاریگر افسر شاہی نے ملی بھگت سے ر یاستی نظام میں اپنے ذاتی فوائد کی خاطر ایسی خرابیاں پیدا کردی ہیں جن کو ٹھیک کرنا آسان نہیں رہا۔سفارش، کرپشن ،اقربا پروری اب بلکل عام ہوگئے ہیں، ایسی بڑی خرابیوں میں سے کوٹہ سسٹم بھی ایک ہے جس نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہی نہیں،وفاقی حکومت ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی خرابیاں پیدا کی ہیں،آزادکشمیر میں مختلف سرکاری ،نیم سرکاری محکموں ، عدالتوں کی ملازمتیں ہوں ،یونیورسٹی ، میڈیکل کالجز میں داخلے ہوں یا وفاقی اداروں میں ملازمتیں یا چاروں صوبوں میں نامینیشن کے ذریعے جامعات میں داخلے، ہرایک کیلئے ضلعی کوٹہ مختص ہے۔محکموں کی ملازمتوں میں تو ضلعی کوٹے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد مہاجرین مقیم کشمیریوں کیلئے کوٹہ تو ہر ایک کیلئے سردرد بنا ہوا ہے۔

آزادکشمیر میں قائم پانچ یونیورسٹیوں ، تین میڈیکل کالجز میں اگر ایڈمیشن کی ہی بات کر لیں تو ایک طرف کچھ اضلاع میں 80 سے 90 فیصد نمبرات لینے والے طلباء کو کوٹے کے میرٹ پر داخلہ ملتا ہے تو دوسری طرف کئی ایسے اضلاع اور مہاجرین مقیم کشمیریوں کے ان طلباء کو داخلہ کوٹے کی وجہ سے ملتا ہے جن کا اکثر میرٹ محض 45سے 60 فیصد کے قریب ہو تا ہے،آزادکشمیر کی افسر شاہی توایسی کاریگر ہے کہ جہاں سے کوئی ملازم ریٹائیرڈ ہونے والا ہوتا ہے وہ اس کا تبادلہ دوسرے ضلعے میں کراکے خالی اسامی پر اپنے کسی من پسند یا سیاسی اثررسوخ والے فرد کو بھرتی کر لیتے ہیں۔اسی طرح نئی اسامیاں تخلیق ہونے سے پہلے ہی ان پر بھرتیوں کا بندوبست کردیاجاتا ہے۔

آزادکشمیر میں ملازمتوں کی تقسیم بارے مختلف طبقات کی آراء سامنے آتی رہی ہیں۔مثلا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنجال ہل سے دارلحکومت جب مظفرآبادشفٹ کیا گیا تو گریڈ 1 سے 16 تک کی تقریبا 75 فیصد ملازمتیں مظفرآباد (ہٹیاں،نیلم) کے لوگوں نے مقامی ہونے کے ناطے حاصل کیں، نچلے درجے کی ملازمتوں میں تعیناتیوں کا یہ تناسب اب بھی قائم ہے۔ اسی طرح اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ 47ء کے بعد سے جس علاقے یا برادری سے تعلق رکھنے والا حکمران آتا رہا وہ اپنی برادری،علاقے کے لوگوں کو ملازمتوں میں نوازتا رہا اور اسی بنیاد پر ترقی اور تبادلے ہوتے رہے،اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتیاں بھی برادری ،علاقے یا جماعت سے وابستگی کی بنیاد پر ہوتی آئی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ترقی وتبادلوں کا وہ سلسلہ موجودہ حکومت کے وقت بھی قائم ہے۔

چند لوگ اب بھی کوٹہ سسٹم کے حق میں ہیں، ان کا موقف ہے کہ پسماندہ اضلاع میں چونکہ تعلیم اور معلومات تک رسائی کے وہ مواقع شہریوں کو میسر نہیں جو بڑے شہروں کو حاصل ہوتے ہیں، مہاجرین مقیم کشمیری چونکہ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آزادکشمیر کے مختلف شہروں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے اس لیے ان کا کوٹہ مختص کیا گیاتھا، کوٹہ سسٹم کے حق میں دلائل دینے والوں کا موقف ہے کہ انہی وجوہات کومد نظر رکھتے ہوئے اگر اب کوٹہ ختم کردیا گیا تو ان کم ترقی یافتہ علاقوں کے لوگوں اورمہاجرین مقیم کشمیریوں سے نا انصافی ہو گی،ان کو اوپن میرٹ کے ذریعے شاید ملازمتیں یا ایڈمیشن ملنے میں دشواری ہو ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادکشمیر میں ضلع حویلی،عباسپور،ضلع نیلم میں شاردہ سے تاو بٹ ،ضلع بھمبراور ہٹیاں بالا میں لیپہ کے علاقوں کو پسماندہ اور دور افتادہ قراردے کر جو لوگ اس فلسفے کو پروان چڑ ھاتے ہیں ان کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ ضلع حویلی میں صرف شرح خواندگی ہی76 فیصد سے زائد نہیں بلکہ وہاں سے پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد بھی آزادکشمیر میں سب سے زیادہ ہے، اب وہاں انٹرنیٹ بھی بیشتر علاقوں میں موجود ہے، اسی طرح عباسپور میں شرح خواندگی اس حد تک بلند ہے کہ ریاست میں سب سے زیادہ ڈاکٹرز اسی علاقے سے بنتے ہیں، لیپہ ویلی اور نیلم کے علاقوں میں مسئلہ تعلیم کا نہیں بنیادی سہولتوں، تعلیمی اداروں کی کمی، سخت موسمی حالات ، سفری دشواریوں کا ہے ، جبکہ ان علاقوں کے بیشتر لوگ تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات میں بہت آگے ہیں ، اب وہاں انٹرنیٹ بھی کسی حد تک عام شہریوں کی زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ میرپور، کوٹلی،راولاکوٹ، باغ،سدھنوتی ، مظفرآباد کے اضلاع میں نوجوانوں کو اب100 فیصد کوٹہ پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ میرٹ پر ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں کیلئے دل بڑا کرنا چاہیے۔

سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں خالی اسامیوں پر ملازمین کے بچوں کا کوٹہ ہو یا فوت ہو جانے والوں کا کوٹہ، یا مہاجرین مقیم کشمیریوں کا کوٹہ ہی کیوں نہ ہو ، یہ سب کوٹے اب اس لیے بند ہونے چاہیے کیونکہ کسی بھی پوسٹ کیلئے ملازمت حاصل کرنے کا حق ریاست کے تمام شہریوں کا ہوتا ہے، جو اس کے میرٹ پر پورا اترتا ہے اس کوکوٹے کے چکر میں ڈال کر مقابلے کی دوڑ میں شامل نہ ہونے دینا زیادہ بڑی نا انصافی ہوتی ہے۔

آزادکشمیر میں کوٹہ سسٹم سے پسماندہ اضلاع کے عام شہریوں کو فائدہ کم ہی ہوتا ہے جبکہ کوٹے کے نام پر افسر شاہی اور حکمران طبقہ کمال مہارت دکھاتے ہوئے اپنے بندے بھرتی کراتے اور انہیں تعلیمی اداروں میں داخلے دلاتے ہیں۔ افسر شاہی اور چلاک سیاستدانوں کا توکوئی بھی مخصوص قبیلہ یا علاقہ نہیں ہوتا ، ان کیلئے ذاتی مفادات ہی سب کچھ ہوتے ہیں،ہاں یہ ضرور ہے کہ کوٹے کی وجہ سے چند ایسے خاندانوں کے نوجوانوں کو بھی اچھی ملازمتیں ملتی رہی ہیں جو شاید عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا،ایسی ہی چند مثالوں کو سامنے رکھ کر افسر شاہی اور سیاستدان کوٹہ سسٹم کے حق میں مضبوط دلائل دیتے ہیں۔

پاکستان میں نافذ 73ء کے دستور کا آرٹیکل 27 شق 1 وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں رنگ ونسل، مذہب، ذات، جنس، رہائش اور جائے پیدائش سمیت کسی قسم کے امتیازی سلوک کیخلاف شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ آزادکشمیر میں نافذ ایکٹ 74 ء بھی تمام شہریوں کو برابری کے حقوق دیتا ہے، پھر کیا وجہ ہے آئین سے متصادم قوانین کا ابھی تک راستہ نہیں روکاجا سکا؟ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے سال 2016ء کے ماہ ستمبر میں وکلاء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ آزاد کشمیر میں جلد ہی قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بالادستی قائم کر کے وہ اس آزاد خطہ کو اسلامی فلاحی معاشرے میں بدل دیں گے، ان کے اعلان کے مطابق وہ آزاد کشمیر سے کوٹہ سسٹم ختم اس لیے ختم کریں گے کہ یہ کوٹہ سسٹم اسلامی قوانین کے منافی ہے اور انصاف کے نام پر ناانصافی ہے۔اب اس اعلان کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور اقتدار کو دورانیہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان اگر اس نا انصافی والے سسٹم کا خاتمہ یا کوٹے میں واضح کمی ہی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ شاید اپنے دور میں پڑھے لکھے نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کیلئے سب سے اہم وبڑا کام کرجائیں گے جو تاریخ بھی یاد رکھے گی۔
 

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66160 views Columnist/Writer.. View More