صدرِ عالی مُقام، قابلِ صد احترام اساتذہ کرام اور معصوم خواہشات کی منزل
کے راہیوا! السلام علیکم: خواہشات کا لامحدود کارواں ایک انجانی منزل کی
طرف رواں دواں ہے جس کی غالب نے اس طرح ترجمانی کی ہے کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
صدرِ محفل! طبقاتی تفریق کی آماجگاہ پاکستان میں بچوں کی خواہشات کو ماپنے
کے پیمانے الگ الگ ہیں۔ وزیروں، مشیروں، وڈیروں، جرنیلوں، کرنیلوں اور
اشرافیہ کے بچے جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں ان کی خواہشات
کا ذکر کروں تو شائد میرا تصور بھی ان کا احاطہ کرنے سے قاصر رہے۔ لیکن میں
ان جیسے اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم بچوں کی خواہشات کا تذکرہ کر کے ننانوے
اعشاریہ نو فیصد بچوں کی خواہشات کا خون نہیں کرنا چاہتا۔ آج کے بچے یہی
بچے ہیں جو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ننگے پاؤں گندگی کے ڈھیر سے روٹیوں
کے غلیظ ٹکڑے چن کر کھانے پر مجبور ہیں۔ آج کے بچے کی سب سے بڑی خواہش یہ
ہے کہ اس کی پڑھائی میں طبقہ اشرافیہ کی ڈالی جانے والی رکاوٹیں دور کر دی
جائیں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر آسانی سے قومی دھارے میں شامل ہوکر باعزت مقام
حاصل کر لے۔ یہ بات آج کا بچہ زبانِ قال سے تو کہتا ہوا نظر نہیں آتا مگر
زبانِ حال سے چیخ چیخ کر پکار رہا ہے مگر کوئی اس کی جگر خراش دہائی سننے
والا نہیں۔ میں بھی انہیں بچوں میں سے ایک بچہ ہوں ۔ آج اگر انسان میری
فریاد نہیں سنتے تو میں دیواروں کو پکار پکار کر سنانا چاہتا ہوں۔ کوئی
روکے بھی تو میں رکنے والا نہیں۔
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
جنابِ عالی ! لارڈ میکالے کے شاگردوں نے سامراجی بھیک کے عوض آج کے بچے کو
نفسیاتی مریض بنانے اور تعلیم سے بدظن کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ کتابوں کا
اتنا بوجھ کہ جس کے نیچے آج کے بچے کی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں دبی چلی
جا رہی ہیں۔خدا نے تو ان بچوں کو انسان بنایا تھا مگر عالمی بینک، آئی ایم
ایف اور یو ایس ایڈ کے بھکاری قاتلانِ تعلیم نے ان کو بوجھ ڈھونے والے گدھے
بنا دیا ہے۔ظلم کی یہ سب سے بدترین شکل ہے جو آج کے بچے پر ڈھایا جا رہا ہے۔
میں برملا کہوں گا کہ انگلش میڈیم آج کے بچے کو پلایا جانے والا سب سے بڑا
زہر ہے جو رٹہ اور ٹیوشن بزنس کو جنم دینے والا اور غریب بچے کو ابتداء سے
ہی تعلیم سے بد دل کرنے والا نظام غیر فطری نظام ہے۔ اسی فہم کُش اور تحقیق
و تخلیق کے سوتوں کو خشک کر دینے والے نظام سے گھبرا کر آج پنجاب کے پچاس
فیصد بچے پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی سکول سے بھاگ رہے ہیں۔ موجودہ ٹھنڈے
کمروں میں بننے والے نصاب کو فقط ذہنی اذیت کے ساتھ رٹوایا جا رہا ہے۔ اسے
عام استاد تو کیا پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی سمجھا سکتے بلکہ میں تو کہوں گا کہ
آسمان سے فرشتے بھی اتر آئیں تو وہ بھی نہیں سمجھا سکتے۔
صدرِ ذی وقار آج کے بچے کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ اسے اس بوجھ سے نجات
دلائی جائے۔فہمِ علم و فن آج کے بچے کی سب سے بڑی خواش ہے ۔ خدا نے ایک
لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو لوگوں کی زبان میں مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو
بات کھول کر بیان کریں۔ کیا اس سے یہ بات چمکتے ہوئے سورج کی طرح واضح نہیں
ہے کہ بات اپنی ہی زبان میں سمجھ آتی ہے۔ اے میرے حکمرانوں آج کے بچے کی اس
خواہش کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نظریہ پاکستان اور اسلامی تعلیمات سے
بہرہ مند کر کے اور حسنِ اخلاق کے گوہر سے آراستہ کر دیجئے تو آج کے بچے
مستقبل کے ہزاروں ڈاکٹر قدیر ثابت ہوں گے۔ تعلیم کی رکاوٹیں دور ہوگئیں تو
روٹی ، کپڑا، مکان اور عزت سب کچھ مل جائے گا۔
آخر میں میں آج کے بچے کی خواہشات کا گلا گھونٹنے والے سامراجی ایجنٹوں سے
برملا اور واشگاف الفاظ میں کہوں گا کہ
اجڑا میرے نصاب کا سرسبز باغ آج
کچلا میری تہذیب کا سر تم کو اس سے کیا؟
چھینی میری دلچسپیاں تم نے کتاب کی
رٹے کا پی رہا ہوں زہر، تم کو اس سے کیا؟
پھوٹیں نہ جستجو کے ، نہ تحقیق کے سوتے
مر جائے اشتیاقِ سفر ، تم کو اس سے کیا؟ |