یہ کالم حالات کے لئے لکھ رہا ہوں جو ہمارے عزیز ملک
رضوان کے کزن اعجاز صاحب کا ہے ایسا لگتا ہے۔کہ سارا چکوال ہی اپنا ہے
ہماری پارٹی کے راجہ یاسر سرفراز بھی اس بار خوشخبریوں کے انبار لا رہے ہیں
وہ ہماری پی ٹی آئی کی شان ہیں شمالی پنجاب پی ٹی آئی میں عامر کیانی کی
قیادت میں بہت کچھ اچھا ہو رہا ہے اور اس اچھے کام کے پیچھے فرزند چکوال
راجہ یاسر کا بھی ہاتھ ہے۔اس بار میلہ سجے گا ایک جانب بڑے بڑے نام ہوں گے
اور دوسری جانب بڑے گھرانے کا بڑا فرد اور نوجوان یاسر سرفراز ۔تماشہ ہم
بھی دیکھیں گے۔لیکن آج اس شخص کی بات ہو گی جس کی باتوں کے ذکر کے بغیر
زندگی ادھوری ہے
چکوال کا نام جب بھی آئے گا میں اسے ایک دوست کے حوالے سے جانوں گا یوں تو
مرحوم جنرل مجید ملک ایاز امیر میجر طاہر جنرل عبدالقیوم اور بڑے نام اس
دھرتی سے جڑے ہوئے ہیں اور وہ بھی جنہیں میں نہیں جان سکا لیکن سچ پوچھیں
جس سر زمین پر کوئی اپنا ہو تو اسی حوالے سے جانی جاتی ہے نام ملک محیا
لدین ہے اور اسے بجا طور پر پردیس میں چلتا پھرتا چکوال کہہ سکتے ہیں ویسے
تو ہم دعوے کرتے رہیں لیکن اسی دوست کے حوالے سے ملک ایوب کو بھی جانا اور
ان سب ناموں کو۔ملک بہت خوبصورت ہے سمارٹ ہے اور زہین و فطین ایک خرابی ہے
کہ بس مسلم لیگ نون میں ہے اور مجھے علم ہے کہ وہ کس قدر نون میں ہے باوقار
شخص کبھی کاسہ لیسی کرتا دکھائی نہیں دیتا سچ کو سچ کہتا ہے۔بوشال خورد میں
ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا اتفاق و اتحاد کی ایک مثال دیکھنے کو ملتی ہے
ملک عظمت حیات اپنی سیٹ اپنے نام پر جیت کر مخالف فریق کو پچھاڑ کے نون میں
گیا ہے۔ملک سے دوستی کوئی نوے کی دہائی میں پوئی بلکہ اسی کے اواخر میں کہہ
لیجئے جب میں انجینئرز کمیونٹی کے پلیٹ فارم سے متحرک تھا یہ ملک اور
چودھری اکرم ہی تھے جو مجھے کمیونٹی کی محافل میں لے کر آئے۔دونوں کی شہر
بھر میں مخالفت اوپر سے تیسرا میں ہم نے کمیونٹی کی محافل کو گرفت میں لے
لیا سعودی جرمن ہسپتال کے کمپاؤنڈ میں ایک فنکشن تھا وہاں یہ دونوں لے گئے
وہاں میری تقریر تھی اس کے بعد ان دونوں نے بھی ٹھان لیا کہ فن تقریر سے
آشنائی ضروری ہے۔ملک محی الدین اور دیگر دوستوں سے مل کر ہم نے جدہ میں
کمیونٹی کے دلوں پر راج کیا۔کیا کیا نہ کیا بس جو کچھ کیا وہ پاکستان تھا
میری لسانیت پرستوں سے لڑائی میں میرے ساتھی رہے چودھری شہباز حسین سابق
وفاقی وزیر مسعود پوری،نور جرال،ملک سرفراز،ملک محی الدین ،سردار شیر بہادر
ہم نے حلقہ ء یاران وطن کی بنیاد رکھی اس کے پلیٹ فارم سے بے شمار تقریبات
کا انعقاد کیا صدارت اپنے پاس رکھی اور مہمان خصوصی پاکستان کے نامور شعراء
بنائے جن میں احمد فراز ،انور مسعود ضیاء شاہد،مجید نظامی ،مجیب شامی،الطاف
حسین قریشی،امداد نظامی،ڈاکٹر پیر زادہ قاسم اور بے شمار لوگوں کو اس پلیٹ
فارم پر اکٹھا کی اخزام اولمپک پول پر ایک ایسا عظیم الشان فنکشن کیا کہ جس
کا ریکارڈ ابھی تک نہیں توڑا جا سکا۔قرض اتارو مہم میں بھرپور شرکت کی۔وقت
گزرتا رہا اور میرے اس دوست کی اپنی نوازشیں جاری و ساری رہیں۔زود رنج بھی
بہت اپنی مرضی کے بغیر قدم نہیں اٹھاتا ادھر میرا مزاج بھی آتشانہ تھا۔ہم
کبھی کبھار ناراض ہو جاتے لڑ پڑتے مخالفین خوش ہوتے لیکن کچھ ہی دنوں بعد
راضی خوشی قہقہے لگاتے ۔کیا وقت تھا بس سمجھ لیجئے اسکول کے بچوں کی طرح ہم
نے وقت گزارا۔دوست کی خوبی یہ تھی کہ چکوال سے کوئی بھی آئے اس نے اس کے
اعزاز میں ایک محفل ضرور رکھنی ہے اور محفل میں افتخار کو ضرور بلانا ہے
یہی عادت ہماری رہی۔دوسرا سخت برادری پرست آدمی ہے اعوان کہیں سے بھی نظر آ
جائے اس کی پذیرائی کرنا فرض سمجھتا ہے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ
پاکستان سے کوئی اعوان بھی آ جائے اس کے لئے دیدہ و دل فرش راک کر دیتا
ہے۔میں کئی بار کہتا یار ہم گجر بھی گجر پرست تگڑے ہیں مگر آپ حد سے گزر
جاتے ہو۔دونوں میں عادت خاص اور مشترک تھی کہ میں گجروں کو منظم کرتا اور
وہ اعوانوں کو۔ہزارہ میری رگ و جاں میں رہا اور چکوال اس کے پاس۔چکولاینز
مرزا گلنار بیگ احم کمال شاہ اس کی محفلوں کی رونق رہتے اور ہمارے ہاں ہم
بھی اسے کسی نہ کسی بہانے عزت بخشتے۔
ملک محی الدین کا اپنا کاروبار ہے اﷲ پاک اسے مزید نوازے۔میاں نواز شریف جب
کبھی ادھر ہوتے ہیں ان کے دائیں بائیں ہوتا ہے۔حد سے زیادہ برادری پرست اور
مارشل قوموں کی عزت کرنے والا اسے چڑھانے کے لئے ہی اتنا کافی ہوتا تھا کہ
دیکھو یار اعوان ہو کر تم۔۔۔۔۔کی چاپلوسی کرتے ہو تو اس کا غصہ دیدنی ہوتا
ہے۔ملک محی الدین کسی نئے آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ دیتا تو اسے صرف نظر نہیں
کرنے دیتا تھا روکتا اور اس سے تعارف ٹھیک ٹھاک کروا کر اجازت دیتا کہ وہ
کسی اور سے ملے۔
کہتے ہیں دلیری اور بے وقوفی دو بہنیں ہیں ہم گجر اس میں فرق نہیں رکھتے
زیادہ تر بے وقوفی کی حد تک دلیری کر جاتے ہیں ملک انتہائی زیرک چالاک اور
ہشیار دوست ہے۔مارشل لاء دور میں جب جنرل درانی سے پنگا لے بیٹھا اور اس کے
نتیجے میں ایک مونچھوں والے باندر کے ذریعے جدہ جیل جا پہنچا تو ملک محی
الدین کی ہشیاری اسے فورا جدہ سے اسلام آباد لے آئی کچھ دوست لندن چلے گئے
مرحوم احسن رشید بھ غائب ہو گئے اور شنید ہے کہ جب مجھے ہاتھ ڈلا تو ایک
پورا جہاز جس میں بہت سے دوست تھے وہ ملک سعودی عرب سے پاکستان پہنچ
گئے۔ملک یہاں پاکستان ّ کر ہماری رہائی کے لئے کوشاں رہے۔میرے ساتھ نواز
شریف نے سب سے بڑی زیادتی کی کہ انہوں نے اپنے بندے چھڑوا لئے قاری
شکیل،ارشد خان مسعود پوری چھٹ گئے اور میں اور دیگر لوگ ڈیپورٹ ہو گئے۔میاں
صاحب کی وہ تسلیاں طفل تسلیاں ٹھہریں جو وہ صبح و مساء میرے بچوں کو دیتے
تھے کیپٹن صفدر مریم شہباز شریف آئے روز میری فیملی کو کہتے کہ آج نہیں کل
باہر آ جائیں گے ۔یہاں بات مجھے صرف ملک محی الدین کی کرنی ہے ۔ہمارے دوست
نے مسلم لیگی ساتھیوں کی گرفتاری پراپنے تئیں بڑی آواز بلند کی۔میں شکر
گزار ہوں کے مشکل وقت میں ساتھ دیا۔پاکستان آ کر جنرل مجید ملک مرحوم
اعجازالحق سے مل کر ہماری رہائی کی کوششیں کیں۔لیکن ہمیں یہ علم تھا کہ
میاں نواز شریف اور ان کا سارا ٹبر ہمیں گولی دیتا ہے انہوں نے اپنے لوگ
چھڑوا لئے اور ہمیں کنگلا کر کے پاکستان بھیج دیا۔ملک محی الدین کی سب سے
بڑی خوبی ہے کہ اس نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی فیملی کو بھی آگیبڑھیا عموما لوگ
اپنے حال میں مست رہتے ہیں لیکن اپنے بھائیوں کا ہاتھ پکڑا انہیں اپنے پاؤں
پر کھڑا کیا ملک عظمت حیات تو چودھراہٹ میں مصروف رہا لیکن جب اﷲ نے اولاد
کو اس قابل کیا کہ وہ مزدوری کر سکیں ملک محی الدین نے انہیں جدہ بلوا کر
کاروبار کر کے دئے اور خوب پھلے پھولے۔یہی کمال ہوتا ہے اچھے لوگوں گا وہ
اپنے ساتھ سب کو لے کر چلتے ہیں جدہ کے قیام کے دوران ہم نے بھی یہی کچھ
کیا جو ہمارا دوست اور اچھے دوست کرتے آئے ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اور اﷲ پاک
اپنے بندوں پر کبھی آزمائیشیں نہیں ڈالتا جس سے وہ عہدہ براء نہ ہو سکیں یا
جس کو وہ برداشت نہ کر سکیں۔جدہ میں مقیم پاکستانیوں میں یہ ایک سرخیل
پاکستانی ہے ہجوم دوستاں میں اس قدر جانا اور پہچانا جاتا ہے کہ ایک عرصہ
تک زہرہ ریسٹوینٹ کا ملاک ملک محی الدیں کو ہی سمجھا جاتا رہا۔اﷲ تعالی
راجہ مظہر اور چودھری اعظم کو سلامت رکھے انہوں نے بھی کبھی پوچھنے والے کو
یہ نہیں کہا کہ یہ ہوٹل ملک صاحب کا نہیں ہے۔میں نے ایک بار گلہ کیا یار
میں آئے روز محفل لگاتا ہوں فلاں فلاں بنے ایسے ہیں انہوں نے چائے کی پیالی
کبھی نہیں پوچھی۔کہنے لگا چودھری یار یہ راز کبھی بتانا بھی نہیں جن کے
دستر خوان ہوتے ہیں ان پر اﷲ زیادہ ہی مہربان ہوتا ہے۔وسدا روے چکوال جس
جگہ ہمارا یہ دوست رہتا ہے اور وہ جدہ جہاں اس کے ساتھ خوبصورت وقت گزارا
ہے۔یہ کالم حالات کے لئے لکھ رہا ہوں جو ہمارے عزیز ملک رضوان کے کزن اعجاز
صاحب کا ہے ایسا لگتا ہے۔کہ سارا چکوال ہی اپنا ہے ہماری پارٹی کے راجہ
یاسر سرفراز بھی اس بار خوشخبریوں کے انبار لا رہے ہیں وہ ہماری پی ٹی آئی
کی شان ہیں شمالی ہنجاب پی ٹی آئی میں عامر کیانی کی قیادت میں بہت کچھ
اچھا ہو رہا ہے اور اس اچھے کام کے پیچھے فرزند چکوال راجہ یاسر کا ہاتھ
ہے۔اس بار میلہ سجے گا ایک جانب بڑے بڑے نام ہوں گے اور دوسری جانب بڑے
گھرانے کا بڑا فرد اور نوجوان یاسر سرفراز ۔تماشہ ہم بھی دیکھیں گے۔ |