دین اسلام میں نماز جیسی اہم عبادت کو ادا کرنے کے لیے
ایک شرط رکھی ہے. جس کو وضو کہتے ہیں۔ اگر وضو کو توجہ دہیان سے کیا جائے
تو بے پناہ اجر و ثواب کا باعث بن جاتا ہے۔حضرت شاہ والی اللہ محدث دہلوی
رحمةاللہ فرماتے ہیں کہ وضو میں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے بہت سی برکات
رکھی ہیں۔ انہی میں سے ہے کہ انسان کے اندر روحانی پاکییزگی اور وضو
نورانیت پیدا کرتا ہے۔اس لیے بارگاہ میں خاص حضوری یعنی نماز کے لیے لازمی
شرط ہے۔
وضو گناہوں کی صفائ اور معافی کا ذریعہ ہے۔حدیث شریف میں ہے۔"جس شخص نے بہت
اچھی طرح وضو کیا تو اس کے جسم کے سارے گناہ دھل جائیں گے یہاں تک کہ
ناخنوں کے نیچے سے بھی۔ اس کی برکت سے سارا جسم گناہوں کی دھول و ناپاکی سے
پاک ہو جاتا ہے۔لہذا وضو حضور قلب سے کیا جائے اور محسوس کیا جائے کہ میرے
گناہ معاف ہو رہے ہیں۔ اگر انسان وضو کے وقت گناہوں پر نادم ہو تو اس کے
تمام کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جائیں گے۔
امام غزالی رحمةاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر
ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آے گا۔ایک
حدیث میں ہے کہ"گناہوں کو دھو دینے اور تمہرے اعمال کوبلند کر دینے والے
اعمال میں سے ایک عمل مشقت کے موقع پر وضو کرنا ہے.
تو ہر مرتبہ وضو کرنے سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ساری زندگی باوضو رہنے
والے کے نامہ اعمال میں گناہوں کی میل کچیل باقی نہیں رہے گی. یہ الله کا
کرم و فضل ہے کہ وضوکےبہانےسے مغفرت فرما دیتے ہیں. اور وضو انفصال عن
الخلق اور اتصال مع الحق یعنی مخلوق سے کٹنا اور الله رب العزت سے الحاق کا
نام ہے .ایک حدیث میں وضو کو مومن کا اسلحہ بتایا گیا ہے.
جس طرح انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابله کرتا ہے. اسی طرح مؤمن
وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے.اور اچھی طرح وضو کر کے ادا
کے گئ نماز دوزخ سے ڈھال ہے. باوضو رہنے کے متعلق نبی صلی الله علیه وسلم
نے حضرت انس کو نصحیت فرمائی
اے میرے بیٹے اگر تم سے ہو سکے تو همیشه باوضو رہا کرو .ملک الموت جب بنده
کی روح قبض کرتا ہے تو اگر وه باوضو ہوتا ہے. تو اس کے لیے شهادت کا درجه
لکھ دیا جاتا ہے.
تمام سنن و آداب کے ساتھ وضو کرنا عمر میں برکت کا باعث ہے . جو مسلمان
باوضو الله کا ذکر کرتے ہوئے سو جاۓ تو رات کو جس گھڑی میں بیدار ہو کر
الله سے دنیا و آخرت کی جس بات کا سوال کرتا ہے . الله اسے عطا کر دیں گے.
اسی طرح جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ سے میں
نے سنا ہے. آپ نے فرمایا ہر بندہ قیامت کے دن اسی حالت میں اٹھایا جائے گا.
جس میں وہ فوت ہوا تھا.
تو جب وضو کا عادی مرتا ہے. تو با وضو ہوتا ہے. تو اسی حالت میں خالق
کائنات کے سامنے پیش ہو گا اور انہی اعضاء کے چمکنے سے ہی تو امت محمدی صلی
اللہ علیہ وسلم کی پہچان ہو گی. با وضو رہنے کا تعلق ذہن اور عادت سے ہے.
ہم بے وضو زندگی گزارنے کے عادی ہیں ہمیں باوضو زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی
ہو گی تھوڑی محنت و مشقت اٹھا کر اس کی عادت بنا کر اسکی برکات کو حاصل کیا
جا سکتا ہے. یہ اتنی آسان عبادت ہے ہر کوئی با آسانی عمل کر سکتا ہے تو ہر
ممکن حد تک اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے. |