حافظ عبدالستار صاحب مرحوم

جناب حافظ عبدالستار صاحب سے پہلی شناسائی سوشل میڈیا کے توسط سے ہوئی ، غائبانہ تعارف کا یہ سلسلہ رسمی شناسائی تک محدود رہا، مدت تک ملاقات کی کوئی شکل نہ بن سکی، اچانک ایک روز میرے دوست مولانا بدر عالم صاحب رائے پوری نے مجھے بتایا کہ ایک صاحب ہم سے ملنے آرہے ہیں، آپ بھی ملاقات کرلیجئے ، میں نے پوچھا کون ہیں؟ تو بتایا کہ ہمارے ایک نیاز مند حافظ عبدالستار صاحب ہیں جو پنجاب کے ضلع کرنال میں رہتے ہیں ، دوران گفتگو بدر بھائی سے میں نے کہا کہ میرا بھی ان سے غائبانہ تعارف ہے، طویل عرصے سے میں بھی ان سے ملاقات کرنے کا متمنی ہوں، چنانچہ ہم لوگ ان کو لینے کے لئے بس اسٹینڈ پر گئے؛لیکن اس بھری بھیڑ میں مجھے ان کی بھاری بھر کم شخصیت کہیں نظر نہیں آئی، بدر بھائی نے ان کی جانب اشارہ کرکے بتایا کہ یہ ہیں جناب حافظ عبدالستار صاحب ،مختصر تعارف ہوا ، میں نے بھی اپنے تعلق کا ذکر کیا تو انہوں نے فوراً آپ مجھے پہچان گئے، دیر تک باتیں ہوتی رہیں، آپ کی فعال اور متحرک شخصیات کے بہت سے پہلوواں ہوتے ہیں، بدر بھائی نے بتایا کہ آپ کی بہت سے سماجی اور فلاحی کاموں سے وابستگی ہے ، خاص طورسے پیام انسانیت کے حوالے سے آپ کا کام بڑی اہمیت کے حامل ہے، ا س کے ساتھ ساتھ آپ پنجاب اورہریانہ کی دوسری ملی اور قومی تحریکوں سے برابر رابطے میں رہتے ہیں، آپ کے والد نے بتایا کہ ہر یانہ وپنجاب کی فعال قومی تنظیم ’’مجلس احرار‘‘ کی علاقائی ذمہ داری بھی آپ ہی کے سپرد تھی، بہر حال آپ کے حوالے سے عزم و ثبات کی روداد سن کر یہ احساس ہواکہ سماجی اور قومی خدمت کے لئے نہ عمر کی قیدہوتی ہے نہ دولت کی، جولوگ اپنے اندر ملت کے تئیں مخلصانہ جذبہ رکھتے ہیں وہ پتھروں سے پانی نکالنے اور پرکھاروادیوں سے گزرنے میں کوئی خوف اور ڈر محسوس نہیں کرتے، وہ صرف ایک محکم جذبہ اور عمل پیہم پر یقین کرتے ہوئے منزلوں کو تلاش کرلیتے ہیں، لاریب ایسے ہی پختہ انسانوں کی فہرست میں حافظ عبدالستار صاحب نظر آرہے تھے، انہیں اپنے مشن کی تکمیل میں نہ عمر حائل ہوتی دکھائی دے رہی تھی نہ دولت کی کمی ، وہ مجھے قلندروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے ،اوران کے انداز حال سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ شخص بھوکے اورننگے پاؤں کامیابی پر مکمل وجدان کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے : ؂
میں پھول اپنے لہو کے کھلاکے چھوڑونگا ظ میرا سلیقہ بہاروں کے کام آئے گا

حافظ عبدالستار صاحب اپنی محنت پر مکمل یقین رکھتے تھے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اکابرین اوربزرگوں سے گہری عقیدت بھی رکھتے تھے، اور اپنے تمام مشن کی تکمیل کے لئے اپنے اساتذہ کی دعاؤں اور مشوروں کو ہمیشہ مقدم رکھتے تھے ، خانقاہ رائے پوری سے آپ کا روحانی تعلق اس وقت سے قائم ہے جس وقت آپ نے علمی تشنگی بجھانے کے لئے اکابرین اسلام کے روحانی مرکز خانقاہ رائے پور میں پڑاؤ ڈالا اور وہاں کے اکابرین خصوصاً حضرت اقدس مفتی عبدالقیوم صاحب رائے پوری مدظلہ کی صحبت نے آپ کے ارادوں اور حوصلوں کو نئی امنگ عطا کی، یقینا آپ کی اس تمام جدوجہد میں حضرت مفتی صاحب کی صحبت اورفیض کا بڑا دخل تھا، غالباً یہی وجہ رہی ہوگی کہ مرنے سے پہلے جن لوگوں کو آپ نے یاد کیا، ان میں اکابرین رائے پور میں حضرت اقدس مفتی عبدالقیوم صاحب اور حضرت الحاج منشی عتیق احمد صاحب خاص طورسے قابل ذکر ہیں ۔

قیادت وسیادت کی جو روح اور روشنی آپ کو بزم رحیمی خانقاہ رائے پورسے ملی تھی اسی کو حرزجاں بنا کر قومی خدمت کے فرائض انجام دیتے رہے ، یہ بات حق اور سچ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی ملی کام کرنے کے لئے جن اصولوں کی ضرورت ہے وہ بقائے باہم اور آپسی پیارومحبت سے ہوکر گزرتے ہیں، حافظ صاحب نے آپسی بھائی چارگی کو فروغ دینے کے لئے تمام مکتب فکر کے لوگوں سے تعلقات قائم کئے ، اسی طرح اپنے معاصر سے ہمیشہ وابستہ رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے بڑوں کا اور معاصر کا اعتبار حاصل تھا، مولانا بدر عالم کا یہ اقتباس آپ کے وقار کو دوبالا کردیتاہے۔

حافظ عبدالستار صاحب میرے ایک مخلص اور قریبی دوست تھے، ۱۹۹۳ء میں گاؤں منڈی گڑھی ، ضلع کرنال ،صوبہ ہریانہ میں پیدا ہوئے، چند روز قبل عین جوانی میں انہوں نے اس دنیا کو الوداع کہا، ان کے انتقال سے بہت سارے لوگوں کوسخت صدمہ ہوا، یقینا عبدالستار صاحب کے اندر بہت ساری خوبیاں تھی، وہ ایک نیک ، شریف ، سمجھدار اور دین دارشخص تھے، ان کے اعمال اوراخلاق بہت عمدہ تھے ، ان کا مزاج دوستانہ تھا، ان کی تعلیم وتربیت مدرسہ فیض ہدایت در گلزار رحیمی خانقاہ رائے پور میں ہوئی تھی ، جہاں سے موصوف نے آخری وقت تک اپنا تعلق قائم رکھا، اسی مدرسہ میں موصوف نے قرآن کریم کو حفظ کیا اور دین کی بنیادی تعلیم حاصل کی ، اس دوران اپنے تعلیمی زمانے میں اس نے علم حاصل کرنے کے ساتھ حضرت مولانا مفتی عبدالقیوم صاحب رائے پوری کی خدمت اور صحبت بھی اختیار کی، خانقاہ رائے پور میں حضرت کی صحبت میں انہیں ایک روحانی اور عمدہ تربیت حاصل ہوئی، اوراس کے اثرات اس کی پوری زندگی میں واضح طورپر ظاہر ہوئے، یہاں آپ نے اہل اﷲ کی زندگی او ردین کی عملی شکل اورنمونے کااپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، وہیں آپ کے اندر سنجیدگی، تواضع، اخلاق، ادب واحترام ،خدمت کا جذبہ اور عبادت کا شوق پیدا ہوا اور یہاں کے ماحول میں رہ کر اس کے اندر دین کا کام کرنے کی حرارت پیدا ہوئی ۔

چنانچہ موصوف نے اپنا وقت اورزندگی کسی نہ کسی شکل میں دین کی خدمت کرتے ہوئے گزاری، تعلیم کے زمانے ہی سے آپ کے اندر لکھنے اور بولنے کا بہت اچھا سلیقہ تھا، جس سے اس نے خوب فائدہ اٹھایا اور بہت سارے لوگوں کو متأثر کیا ،موصوف کو علماء اور اولیاء اﷲ سے بڑی محبت اور مناسبت تھی اور وہ ان سے مستقل طور پر تعلق اور رابطہ رکھتے تھے ، اوران سے مشوروں اور دعاؤں کو حاصل کرتے رہتے تھے ، وہ ایک نیک سرگرم شخص تھے، موصوف نے اپنی ذاتی کوشش اور محنت سے اپنے علاقے میں کئی شاندار پروگرام منعقدکرائے ، اگر چہ انہیں ایک بہت مختصر زندگی ملی اور وہ صرف تیئس سال ہی اس دنیا میں رہ سکے، مگراس مختصر مدت میں آپ نے بہت سے قومی، ملی اور دینی کاموں میں نہایت جوش اور سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا، اور اپنی مختصر سی زندگی میں کئی بڑے کام سر انجام دیئے ، اس کی وجہ سے وہ اپنی کم عمری میں ہی بہت سارے لوگوں کے لئے مستقبل میں امید کی کرن بن گئے تھے ، ان کی یہ تھوڑی سی زندگی نوجوانوں کے لئے ایک بڑی مثالی زندگی ثابت ہوگی انشاء اﷲ ، اﷲ تعالی موصوف کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔

حافظ عبدالستار صاحب سے باضابطہ یہ پہلی ملاقات تھی جس میں میرے تأثرات کا صاف خلاصہ ان کے بارے میں یہ تھا کہ ایک طرف تو میں ان کا سراپا دیکھ کر حیران تھا کہ دبلا پتلا یہ نوجوان جس کے چہرے پر نیند اور تھکن کے آثار نمایاں تھے ، دوسری طرف فلاحی اور سماجی کاموں کے تئیں ان کے جذبے کی شدت سے ایسالگ رہاتھا کہ قومی فکر اور تفکرات نے اس کے بدن کو پگھلا کر راکھ بنادیا،یہ تیئس سال کا نوجوان اور ملت کے ملت کے تئیں اس کے حوصلے اورپھر ان حوصلوں اورارادوں کو عملی اقدام تک پہنچانے کی ان کی جدوجہد اور کوشش مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی رہی، ایک طرف میرا دل خوشی سے لبریز تھا اور میں یہ سمجھ رہاتھا کہ جس قوم کے پاس ابھی بھی ایسے مخلص نوجوان ہوں تو اسے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، دوسری طرف میرا دل رو رہاتھا اوراپنے اوپر کف ماتم تھا کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کوکیا ہوگیا، وہ منزل سے کیوں بھٹک گئے ، نہ ان کی زندگی کا کوئی محور ہے اور نہ ان کے سامنے کوئی مقصد حیات ، امیدوبیم کی جگہ مایوسیوں نے لے لی ، حرکت پر عام جمود، فکروں پر زنگ، آخر کب ان کی عقابی روح بیدار ہوگی، کیا ان کی خاک میں شررباقی نہیں، کیاان کے سوز جگر کو بدل دیا گیا کہ ان کے حوصلے ،ان کے ارادوں کے پابند نہیں، یا ان کے احساس زیاں کو کسی کی نظر لگ گئیکہ وہ تن آسانی کے محور سے نکلنے کو تیار نہیں، واقعہ یہ ہے کہ عبدالستار صاحب کی زندگی کے نشان راہ میں نوجوانوں کوبڑی رہنمائی مل سکتی ہے، جس سے پرخطر اورپرآشوب دور میں امید کے دیئے روشن ہوسکتے ہیں، سوئی ہوئی قوم کوبیدار کیا جاسکتاہے، بصیرت اور بصارت کی آگاہی نصیب ہوسکتی ہے ، لیکن یہ سب ان جوانوں کے لئے ہے جواپنی قوم اوراس کے مستقبل سے ہمدردی اورسچی محبت رکھتے ہیں، ان کے ضمیر بھی زندہ ہوں اور ان کی روح بھی ، پھر وہ اس شعر کا مصداق اپنی زندگی کوسمجھتے ہوں : ؂
عوض لہو کے اگر بجلیاں نہ رقصاں ہوں
تووہ شباب کا ایک وہم ہے، شباب نہیں

جناب حافظ عبدالستار صاحب اپنے پیچھے ایک ایسی داستان حیات چھوڑ گئے جس میں آنیوالی نسلوں کے لئے ایک سامان عبرت بھی ہے اور پیام عمل بھی، کیونکہ آپ کی حیات ہمیں اس بات کے لئے ابھارتی ہے کہ قوم وملت کی خدمت کے لئے نہ دولت کی ضرورت ہے،نہ عمر کی ، بلکہ قومی خدمت کے لئے اس سچے جذبہ کی ، اعتماد کی، محکم اور پختہ کارارادوں کی ،جواں ہمت کی اور اس خلوص کی جس کے بغیر ہر نقش ناتمام ہے، واقعہ میں حافظ عبدالستار صاحب کی زندگی ان تمام خوبیوں کی تثلیث تھی کیونکہ جہاں آپ کا مشن مضبوط ارادوں پر قائم تھا اوراس میں آپ جذبہ کی شدت ضرور رکھتے تھے لیکن آپ کا جذبہ حالات اور ماحول سے آہنگ تھا،اس میں آگ ضرور تھی لیکن شعلے اور انگارے نہیں تھے ، اگر کسی کے جذبے کی شدت میں تحمل اور بردباری شامل ہوجائے توآہنی دیواروں کو موم بنایا جاسکتاہے : ؂
رہی نہ گفتہ میرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زبان میری

کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر ایک دائرہ تک محدود رہتاہے، وقت کی رفتار کے ساتھ وہ حادثے ذہن کے پردے سے محو ہوجاتے ہیں، لیکن کچھ حادثے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اثر بھی دیر پا ہوتاہے ، اوران کو دیر تک محسوس بھی کیاجاتاہے، دوسرے الفاظ میں وہ حادثے اجتماعی ہوتے ہیں اورلوگ اجتماعی حادثوں کی طرح ان کو محسوس کرتے ہیں، حافظ عبدالستار صاحب کا یہ حادثہ لوگوں نے عظیم حادثہ کی طرح محسوس کیاہے ، خاص طور سے جوان بیٹے کی موت ماں باپ کو نیم مردہ بنادیتی ہے ، پھراولاد کے غم کو وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں جو اس جاں سوز حادثے سے گزرے ہوں : ؂
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیاحال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
آنکھیں تھیں سوخشک ہوئی جی ہے کہ امڈاآتاہے
دل پہ گھٹاسی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے

غالب نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے کی جدائی کی حالت کو اس طرح بیان کیا ہے ’’سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غم کسی بھی ماں باپ کے لئے بڑا آزمائش بھرا ہوتاہے ، لیکن صبر پر اﷲ کی طرف سے بڑا اجروثواب ہے ، پھر یہ بھی یاد رہے کہ اسلام نے غم کے اظہار کی اگر چہ اجازت دی ہے کیونکہ غم کے اظہار سے اس کی تپش اوراذیت کم ہوجاتی ہے لیکن اس کا دائرہ اسلام نے محدود کررکھا ہے، ہمارا یہ ایمان اور یقین ہے کہ ہرحادثہ اورواقعہ مشیت ایزدی کی طرف سے متعین وقت پر ہوتاہے، اس لئے ہمیں ہر فیصلہ کواﷲ کی طرف سے قبول کرتے ہوئے مان لینا چاہئے، اﷲ کی ذات علیم بھی ہے اور حکیم بھی اور وہی بااختیار حاکم بھی۔

Fateh Mohammad
About the Author: Fateh Mohammad Read More Articles by Fateh Mohammad: 30 Articles with 29899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.