صبح صادق کا وقت ہے نماز ذکر اذکار کے بعد آب حیات(چائے)
کا کپ میرے ہاتھ میں ہے میں اس وقت کی چائے کو زندگی کا سب سے بڑا حاصل
سمجھتا ہوں اور اس چائے میں زندگی کا بھرپور مزہ پارہا ہوں ہلکی سے مسکراہٹ
لبوں پہ ہے اور مجھے اپنے روحانی بابا واصف علی واصف صاحب کی بات یاد آرہی
ہے کہ تقلید میں عظمت نہیں ہے میں اشفاق صاحب اور واصف صاحب کو اپنا روحانی
باپ مانتا ہوں جن کے لفظوں کی چاشنی میرے دل میں اترتی ہے اور میں خود کو
اس رستے کا مسافر سمجھنے لگتا ہوں جس راستے پر بہت کم لوگ چلتے ہیں اور
مقصد حیات پاتے ہیں علم کی وہ راہیں کھلتی ہیں جو ایک زنگ آلود تالے کی طرح
بند ہوچکی ہوتی ہیں تو بات ہورہی تھی واصف صاحب کے قول"تقلید میں عظمت نہیں
ہے"ظاہری سی بات ہے کوئی بھی اپنے باپ کی بات سے انکار نہیں کر سکتا میں
خود کو اس بات سے سو فیصد متفق پاتا ہوں اور یہ بات سوچتے ہوئے میرا دھیان
پاکستان کے موجودہ حالات کی طرف جاتا ہے کافی سوچ و بچار کے بعد میرا سوچ
کا محور اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد گھومتا ہے اور تمام واقعات فلم کی
طرح چلنے لگتے ہیں جو پچھلے ایک ماہ میں وقوع پذیر ہوئے آپ کسی کی تقلید
کرکے کوئی راستہ تو ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن وہ عظمت وہ شہرت آپ کو حاصل نہیں
ہوسکتی جو آپ کو اپنے سٹائل سے ہوسکتی ہے یہ بات یاد رکھیے گا کہ یہ بات
صرف دنیاوی لحاظ سے ہورہی ہے نا کہ دینی لحاظ سے لہذا دینی "بلے"فضول بحث
کرنے سے گریز کریں مثال کے طور پر ۰۲ سال سرکاری نوکری کرنے والا مولوی جس
نے ساری جوانی سرکار کے لیے برباد کردی وہ عمر کے آخری حصے میں اپنے مخصوص
سٹائل سے شہرت حاصل کرتا ہے شہرت بھی اچھی خاصی جس نے پوری حکومتی مشینری
کو ۳ دن مفلوج بنائے رکھا مجھے یہ فیصلہ نہیں کرنا کہ اس کا عمل ٹھیک تھا
یا نہیں بلکہ مجھے تو بس مثال دینی تھی انسان کو کسی کی تقلید نہیں کرنی
چاہیے بلکہ ہر انسان کا کام کرنے کا رہنے سہنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے آپ
اسی اپنے طریقے کو ساتھ لے کر چلیں نا کہ اوروں کے دامن میں کچھ ڈھونڈتے
پھریں اوروں کی تقلید سے آپ زندگی ڈھنگ سے تو گزار سکتے ہیں لیکن آپ کی
اپنی ذات مخفی رہے گی اپنی ذات کو نکالیے اپنے اندر کی سنیے اپنی خامیوں کو
خوبیوں کی طرف لے آنے کی کوشش کریں اپنا طریقہ کار اپنایئے قاسم علی شاہ جو
پاکستان کے ایک مشہور پروفیسر ہیں جن کے لیکچر ان تمام لوگوں کے لیے ضروری
ہوتے ہیں جو پاکستان کا سب سے بڑا امتحان ??(CSS)?? پاس کرتے ہیں اور بیرون
ممالک میں بھی ان کی کافی ڈیمانڈ ہے وہ تقلید کے حوالے سے کہتے ہیں کہ "تقلید
ضروری بھی ہوتی ہے تقلید ضرور کیجیے کسی کے قدموں کے نشانوں کو لے کر چلنا
ہے لیکن طریقہ کار اور شخصیت اپنی بنائیں"اگر آپ اپنا سٹائل نہیں بنا سکتے
تو آپ شناخت نہیں ہونگی آپ کی ذات مخفی رہے گی آپ نے ایک مشہور جملہ سنا
ہوگا جو اکثر بیشتر لوگ استعمال کرتے نظر آتے ہیں کہ چالیس سال کی عمر تک
تو جناح کو بھی کوئی نہیں جانتا تھا اس کا مطلب ہے کہ چالیس کی عمر کے ساتھ
عظمت کا تعلق ضرور ہے چالیس سال کی عمر میں نبوت کا تعلق بھی ہے کچھ تو
موجود ہے چالیس سال کی عمر میں آپ کو سمجھ آیا کہ آپ کا اپنا اک سٹائل ہے
کہیں آپ دوسروں کے سٹائل کو لے کر زندگی تو نہیں گزار رہے ہر چیز کا اپنا
سٹائل بنائیں بقول روحانی بابا واصف علی واصف بڑا انسان دریا کی مانند ہوتا
ہے جہاں سے گزر کر جاتا ہے نشان چھوڑ جاتا ہے آپ جناح صاحب کی زندگی دیکھ
لیجیے جن کی ہر چیز امر ہو گئی ان کی وہ ڈائری جہاں وہ اپنا حساب لکھتے تھے
وہ میز،کرسی جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے وہ گھر جہاں جناح صاحب نے اپنی ساری
زندگی گزاری یاد رکھیے اگر آپ کا اپنا سٹائل ہے تو مادی اشیاء بھی آپ سے
نسبت کی وجہ سے امر ہوجائیں گی جناح صاحب کی اک اک چیز ہمارے لیے اثاثہ ہے
سو یاد رکھیے آپ کا اپنا سٹائل ہونا چاہیے کاموں میں،اٹھنے میں،بیٹھنے
میں،کھانے میں،پینے میں،بات کرنے میں،احساس کرنے میں،توجہ کرنے میں ان تمام
چیزوں میں سٹائل ہونا چاہیے تاکہ لوگ آپ کو آپ کے سٹائل کی وجہ سے جانے
زندگی میں رسک لینا ضروری ہوتا ہے رسک لیجیے اور احتیاط کیجیے ایسا رسک کہ
اپنی ذات کو لوگوں کے آگے مصنوعی(آرٹیفیشل) بنا کر پیش نہ کیجیے بلکہ سچائی
پیش کیجیے تاکہ آپ کی ذات کو کھودتے وقت آپ کو شرمندگی کا سامنا نہ کرنا
پڑے آب حیات (چائے) کا کپ برف کی مانند ٹھنڈا ہو چکا ہے اب اجازت چاہتا
ہوں،والسلام |