ظاہر و باطن کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہے اور یہ ایک
دوسرے کے محتاج بھی ہیں۔ ظاہر بدلنے کا مطلب دنیا دکھاوا ہے جبکہ باطن
بدلنے کا مطلب ذہن کی سوچ ( Mindset ) بدلنا ہے ۔ اگر کسی دوسرے انسان کو
ظاہری مسکراہٹ کے ساتھ مخاطب کریں گے تو ابتدا میں تاثر تو اچھا ہو گا لیکن
کچھ ہی دیر بعد جب ہماری اصلیت کھل کر سامنے آئیگی تو نہایت ہی منفی تاثر
جنم لیگا جس کو اگر زائل کرنے کی کوشش کی جائیگی تو ایک طویل عرصہ درکار ہو
گا۔ گویا ذہن سازی ہی وہ کاوش ہے جس کے ذریعے انسان کو ایک بہتر مخلوق
بنایا جا سکتا ہے۔
ذہن سازی کیلئے بہترین عمر بارہ سال سے کم ہو تو کم مشکلات پیش آتی ہیں اس
کے بعد جوں جوں عمر بڑھتی ہے تو بچہ کی اپنی سوچ میں تبدیلی کیوجہ سے ہر
بات کو جوں کا توں قبول کرنا مشکل ہو تا چلا جاتا ہے، اس کے اپنے ذہن میں
بھی سوالات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں اور کسی بھی ہدایت یا نصیحت کو قبول
کرنے سے پیشتر بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا ہے لیکن ذہن سازی ایک ایسا فن ہے
جس کے ذریعے انسان کے علاوہ دیگر مخلوق کو بھی آزمایا جا چکا ہے جس کی
بہترین مثالیں بندر اور ڈولفن ہیں ، یوں تو سرکس کے شیر کو بھی انسان اپنی
انگلی کے اشاروں پر چلا لیتا ہے لیکن اس کو سبزی کھانے پر مجبور نہیں کر
سکتا ۔ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کو عمر کے کسی بھی حصے میں ذہن سازی
کے ذریعے کسی بھی عمل کرنے سے روکنا آسان نہیں تو ناممکن بھی نہیں ، جس کی
سب سے بہترین مثال گوشت کھانے سے پرہیز و چینی کھانے سے پرہیز وغیرہ شامل
ہیں۔ یعنی کیس بھی انسان کو خطرناک بیماری میں کسی بھی نقصان دہ شے کھانے
سے روکا جا سکتا ہے بشرطیکہ اس کو قائل کر لیا جائے کہ فلانی شے کھانے سے
تمھاری جان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کام ڈاکٹر یا
حکیم کا ہے لیکن محمدؐ نے (ایک روایت کے مطابق) کسی کو گُڑ کھانے سے منع
کرنے سے پیشتر پہلے خود کھانا چھوڑا گویا اپنی بات میں تاثیر پیدا کرنے
کیلئے پہلے خود اس پر عمل کیا، اسی طرح کسی انسان کو کوئی بھی غلط کام سے
روکنے لئے منع کرنے کیلئے پہلے خود اس سے اجتناب کرنا ہو گا ورنہ اس کی بات
موثر نہ ہو گی۔ اسی طرح دیگر جتنی بھی برگزیدہ ہستیاں گزری ہیں یا آج بھی
موجود ہیں ان میں سے کسی کے پاس جادو کا علم نہ تھا اور نہ ہے بلکہ انھوں
نے اپنے کردار سے اپنی بات میں تاثیر پیدا کی اور دیگر انسانوں کو بہتر
بنانے کی مثالیں قائم کیں اور ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں ۔ آپ کو صادق و
امین مان کر ہی آپ کی رہنمائی مؤثر ثابت ہو سکتی ہے ورنہ کوئی بھی آپ کی
کسی بات پر کان دھرنے کو آمادہ نہ ہوگا۔
گھر میں والدین یا دیگر بزرگ ہوتے ہیں، بچے ان کے طرزِ عمل کو دیکھ کر ان
کی بات مانتے ہیں لیکن ان میں مثبت و منفی یعنی اچھی و بری دونوں باتیں
شامل ہیں۔ کوئی بچہ اپنے گھر کے بڑے کو دیکھ کر مسجد، مندر یا کلیساء جانا
پسند کرتا ہے تو وہی بچہ اپنے بڑے کو دیکھ کر جھوٹ بولنے میں بھی کوئی عار
محسوس نہیں کریگا۔ وہ محض اس شخص کی بات مانے گا جس کو وہ دیکھے گا کہ وہ
خود عمل کرتا ہے خواہ نصیحت کرنے والے گھر سے باہر ہی کا کوئی فرد کیوں نہ
ہو۔ اس نوعیت کی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن سب کا نچوڑ محض ایک ہی
نکتہ ہوگا کہ مجھے ایک اچھا انسان بنانے سے پہلے اپنے آپ کو ایک اچھا انسان
ثابت کرنا ہو گا جس کیلئے مجھے کسی سرٹیفکیٹ کی نہیں بلکہ ایک عملی نمونہ
بن کر دکھانا ہو گا۔
انسان کا مذہبی ہونا ضروری نہیں لیکن کوئی نہ کوئی مذہب ہونا ضروری ہے۔
کوئی مذہب جھوٹ بولنے، چوری کرنے، کسی مجبور یا لاچار پر ظلم کرنے یا
معاشرے میں فساد پھیلانے کو نہ تو اچھا سمجھتا ہے اور نہ ہی اس کا حکم دیتا
ہے۔ گویا تمام مذاہب یا نظریات ایک اچھا انسان اور ایک اچھا معاشرہ قائم
ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ہر انسان کو فردِ واحد
کے طور پر اپنا محاسبہ کرنا ہوتا ہے یعنی جس مذہب یا نظریہ کا وہ ماننے
والا ہے کیا اس پر حتیٰ الوسع عمل پیرا ہے یا نہیں؟۔ کسی انسان کو کسی
دوسرے انسان کے پیچھے ڈنڈا لیکر اس کا محاسبہ کرنے کا اختیار کوئی مذہب یا
نظریہ نہیں دیتا۔ معاشرے میں یہ مقصد محض عملی نمونہ بن کر ہی حاصل کیا جا
سکتا ہے۔ لیکن تنہائی میں منفی قوت (جس کو برائی یا شیطان کا نام دیا جاتا
ہے) کے زیرِ اثر آنے کے بعد انسان سوچتا ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا ، تو اس
کا ضمیر اس کو جھنجوڑتا ہے ۔ جب وہ منفی قوّت اس کی مثبت سوچ پر حاوی ہو
جاتی ہے تو اپنے ضمیر کو عارضی طور پر خاموش کر کے وہ کوئی بھی غلط کام کر
بیٹھتا ہے۔ ہر غلطی کا ذمّہ دار تو وہ خود ہی ہوتا ہے لیکن اس کے سنگین
نتائج کسی نہ کسی صورت میں معاشرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو
متوازن انداز میں چلانے کے رہنما اُصول بھی ہر نظریہ یا مذہب میں مرتب کیئے
ہوتے ہیں جن کے مطابق ہر معاشرہ قانون وضع کرتا ہے جو باہمی مشاورت سے طے
کئے ہوتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ایک بہتر معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ |