سیاست، ریاست، میڈیا

سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، معروف قول ہے یقیناً سیاست کے کسی زخم خوردہ، نباض اور مزاج آشنا کا ہو گا۔
کیونکہ سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں اہم نہیں ہوتیں مفادات اہم ہوتے ہیں۔تعلقات اسی تناظر میں پالے جا تے ہیں ۔چشمِ زمانہ بارہا دیکھ چکی ہے کہ جو یک جان دوقالب تھے دشمنِ جاں ہو گئے غدار محبِ وطن قرار پائے اور حُب الوطنی کا سرٹیفکیٹ رکھنے والے بلیک لسٹ ہو گئے ۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
بقولِ وسیم تاشف۔
سب کی اپنی اپنی منزل ہو تی ہے
سب کے اپنے اپنے رستے ہوتے ہیں
،،ریاست،، ولیم جیمز ڈیورنٹ کے بقول بے رحم جانور، نہ مذہبی، نہ سیکولر، رحم کے جذبات سے عاری،اپنے ہی گرد محو رقصاں، سیاست داں پیدا کرتی انھیں شہرت سے نوازتی اور پھر بغیر کسی وجہ کے ہجرت و عسرت سے دوچار کر دیتی، دشمن بناتی دوستوں کی تعداد کم کرتی، اپنے عدل پر پذیرائی کی طالب نہیں اور ظلم پہ ملامت سے محروم۔
میڈیا #سوشل میڈیا
ترجیحات سے محروم، تہذیب سے نا آشنا اور تحقیق سے بے بہرہ
#الیکٹرانک میڈیا۔بے رحم،جارح اور سنگ دل،
#پرنٹ میڈیا ۔نسبتاً کم بے رحم مقابلے کی دوڑمیں تیسری پوزیشن پر اپنی بقا کے لیے ہانپتا کانپتا رواں دواں اپنے ماضی پہ تفاخر اور حال پہ کڑھتا ہوا ، مجموعی طور پر یہ طاقت کا جدید، اہم اور ناگزیر ستون ہے۔
فی زمانہ ریاست اور سیاست کو اپنے پیچھے بھگاتا، منتیں ترلے کرواتا، صارفین کو رلاتا ہنساتا، عیش کرواتا، لیڈروں کو لڑاتا، آزادی اظہار کے نام پر فکر و خیال کو بے ربط، مبتذل، بے رحم اور بے خدا بناتا چلا جا رہا ہے۔
یہ دیتا کم اور لیتا زیادہ ہے اور احسان جتلانے میں دراز دست۔میڈیا سے وابستہ ہو کر ہم اکثر بد گمانیوں کے حصار میں رہتے ہیں۔بقولِ شاعر! چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر خوش گمانی سے بد گمانی کا (سلیمان ثروت)
گلوبل ویلج میں اب اکثر فسادات میڈیا کی مہربانی سے ہو رہے ہیں۔اگرچہ فی زمانہ میڈیا کی کچھ برکات بھی ہیں لیکن اب کے اِس مہربان کے ستم کچھ زیادہ ہونے لگے ہیں۔ابلاغیات کے شعبیمیں ٹیکنالوجی کے بھرپور استعمال اور اِس پر ساہوکارانہ ذہنیت کے مالکان اور تہذیبی شعور سے محروم افراد کے انتظامی تصرف کے بعد اخلاقیات اور مقامی روایات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انسانی روابط کمزور ہوگئے ہیں بل کہ ہمارا اس مٹی سے تعلق خطرے میں ہے۔یہ سلیکون معلق ثقافت جانے اور کیا گُل کھلائے گی
میرے استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر تو اِسے وائرس کہتے ہیں۔
اس تبصرے کے اختتام پر میرے ناصح نے سید سلیمان ثروت کا ایک اور شعر سنا کر مجھے کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔
سبھی گفتگو کا مآل ہے نہ سوال کر نہ جواب دے
یہاں شورو غل کے بہاؤ میں جسے چپ لگی وہ امر رہا
لیکن....
کیا یہ بے ہنگم اور شور شرابے والی گلوبل کیمونٹی ہمیں چُپ رہنے بھی دے گی۔
بہت سارے اور سوالوں کی طرح شاید یہ سوال بھی قرض رہے۔۔۔
 

Abu Ammad Rashid
About the Author: Abu Ammad Rashid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.