محمد المطلق نامی شخص کو ’’سعودی عرب کا گوگل‘‘ کہا جاتا
ہے۔کہتے ہیں کہ وہ چند منٹوں میں پچاس برس پرانے عالمی واقعات بتا سکتا ہے۔
بلا شبہ وہ ایک غیر معمولی حافظے کا شخص ہو گا۔تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ
چلتا ہے کہ مختلف ادوار میں ایسے بہت سے لوگ گزرے ہیں جو غیر معمولی حافظہ
کے حامل تھے۔کسی کو کئی کئی کتابیں حرف بہ حرف یاد تھیں۔تو کسی کو اپنے
لشکر کے ایک ایک سپاہی کا نام یاد ہوتا تھا۔ امام بخاریؒ جس کا پورا نام
امام عبداﷲ محمد بن اسماعیل بخاریؒ ہے۔ آپؒ کو زندگی کے ابتدائی دور میں
ستر ہزار احادیث زبانی یاد تھیں۔ جن کی تعداد بعد میں تین لاکھ تک پہنچ گئی
تھی۔احادیث کی سب سے مستند کتاب صحیح بخاری آپؒ کی ہی تصنیف ہے۔آپؒ جس کتاب
کے الفاظ کو ایک دفعہ دیکھ لیتے تو وہ آپؒ کے حافظہ میں محفوظ ہوجاتے۔ فرڈی
نینڈ مارکس (Ferdinand Marcos ) ایک فلپائنی صدر تھا۔ جس کے حافظے کا یہ
عالم تھا کہ وہ مشکل سے مشکل الفاظ (Texts ) ایک نظر دیکھ کر یاد کرلیتا
تھا۔ وہ فلپائنی آئین 1935 ء پہلی لائن سے آخری تک اور آخری لائن سے
اُلٹاپہلی لائن تک دونوں حالتوں میں زبانی پڑھ سکتا تھا۔ جی ہاں! تاریخ
انسانی میں ایسے بہت سے لوگ گزر ہیں اور موجود ہیں جن کا حافظہ کمال کا
ہے۔واضح رہے کہ انسانی دماغ اربوں اعصابیوں سے مل کر بنا ہے۔اور ہر اعصابیہ
دوسرے اعصابیے کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور ہر جوڑ پر دو سو ہدایات فی سیکنڈ کے
حساب سے کرتا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ہر اعصابیہ دیگر ایک ہزار اعصابیوں کے
نیٹ ورک تشکیل پاتا ہے۔یوں ایک نارمل انسانی ذہن کے اندر ان گنت نیٹ ورک
پائے جاتے ہیں۔اور اس کی اسپیڈ کروڑوں اربوں ملین ہدایات فی سیکنڈ کے حساب
سے ہے۔جہاں تک حافظے کا تعلق ہے تو دماغ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم میموریز پر
مشتمل ہو تا ہے۔ لانگ ٹرم میموری میں ایک منٹ سے لے کر کئی دہائیوں تک
معلومات محفوظ رہتی ہیں۔بات ہو رہی تھی ’’سعودی عرب کے گوگل‘‘ کی جو اپنی
یاداشت کے سہارے 50 برس پرانے واقعات منٹوں میں بتا سکتا ہے۔ کمپیوٹر کی
دنیا میں گوگل ایک سافٹ وئیر کا نام ہے جو 1998 ء میں دو پی ایچ ڈی (Ph.D )
طالب علموں نے سٹین فورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیا میں بنایا۔ گوگل میں نہ صرف
ایک بہترین سرچ انجن ہے بلکہ اس کی دیگر پراڈکٹس میں آن لائن ایڈورٹائزنگ ،
کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور سافٹ وئیر شامل ہیں۔گوگل کا سرچ انجن جو ایک ملین سے
زائد سرورز(Servers ) پر مشتمل ہے۔ جو آپ کے لئے کسی بھی موضوع کو سیکنڈ کے
100 ویں یا 1000 ویں حصے میں تلاش کرسکتا ہے۔آج کل تو گوگل میں تصویر یا
آواز تلاش کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک شخص کمپیوٹر پر کچھ کام کر رہا تھا۔پاس بیٹھے دوست نے
پوچھا۔’’بھائی! کیا کررہے ہو؟‘‘۔ ’’میرا بیٹا گم ہوگیا ہے ‘‘۔ دوست نے جواب
دیا۔’’اب گوگل پہ تلاش کررہا ہوں‘‘ ۔میرا مطلب یہ ہے کہ گوگل ہر موضوع،لفظ
یا چیز کے بارے میں آپ معلومات فراہم کر سکتاہے۔ لیکن آپ ’’اپنی محبت ‘‘ یا
’’اپنا بیٹا‘‘ یا ’’اپنی عمر‘‘تلاش کرنے بیٹھ جائیں تو یہ ممکن ۔۔۔۔
مجھے اس بات کی بڑی جستجو تھی کہ کوئی ایسا موضوع ہاتھ لگ جائے جو گوگل
تلاش نہ کر سکے۔اب کل کی ہی بات ہے ۔جب میں نے گوگل کھولا۔اس کو لفظ
’’کرپشن ‘‘ دیاتو اس نے 0.74 سیکنڈز میں ایک ارب پچپن کروڑ رزلٹ تلاش کرکے
دیئے۔ پھر میں نے ’’پاکستان میں کرپشن‘‘ (Corruption in Pakistan ) کو تلاش
کیا تو 0.65 سیکنڈز میں دو کروڑ سے زائد رزلٹ ملے۔ یہاں پر یہ بات بتانا
ضروری ہے کہ گوگل کا سرچ ٹائم سرورز (Servers) کے مصروف ہونے کی وجہ سے کم
یا زیادہ ہو سکتا ہے۔میں نے پھر کرپشن پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2014 ء
کی رپورٹ دیکھی تو پاکستان کو 174 ممالک کی فہرست میں 126 نمبر پر دیکھا۔
2013 ء کے سروے کے مطابق پاکستانی معاشرے کے بد عنوان اداروں میں پولیس ،
لینڈ ریونیو،صحت، تعلیم، NGOs ، سیاسی جماعتیں، بزنس اور پرائیویٹ سیکٹرز
وغیرہ شامل تھے۔گوگل کے سرچ انجن میں میری دل چسپی برقرار رہی اور آخر میری
جستجو اُس وقت رنگ لائی جب گوگل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔جب میں نے
گوگل پر کرپشن سے پاک ‘ پاک سرزمین کا کوئی بھی ادارہ تلاش کیا تو گوگل کو
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔جی ہاں! ہمارا ملک اُن ممالک کی فہرست میں شامل
ہے جہاں تمام اداروں میں کرپشن ہوتی ہے۔میمو گیٹ ، رینٹل پاور پراجیکٹ،
ایفی ڈرین کوٹہ کیس، سٹیل مل اور بے شمار بدعنوانی کے اسکینڈل میرے ذہن میں
گردش کرنے لگے۔ مزید سرچ کرنے کی سکت نہ رہی کہ یہ اسکینڈل سرد خانوں میں
پڑے ہیں یا گرم خانوں میں۔ |