دنیا میں تقریباً ۴۲۰۰ طریقوں سے افراد اپنے خلق کرنے
والے کا شکر ادا کیا کرتے ہیں۔ جس سے یہ پتا چلتاہے کہ دنیا میں کتنے مذاہب
رائج ہیں۔ پہلے نمبر پر حضرت عیسی ؑ کے ماننے والے ہیں اور دوسرے نمبر پر
حضرت محمد ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ دنیا وی امور میں اکثریت کی ہی چلا کرتی ہے
اور چل رہی ہے ،مگر ترقی کرتی دنیا نے جن روائتوں کو جنم دیا ہے ان میں سب
سے اہم حقوق کی برابری ہے کوئی کسی پر دھونس دھمکی نہیں چلاکر اپنی نہیں
منوا سکتا۔ اس بات کو یقنی بنانے کیلئے اقوام متحدہ جیسے اداروں کی موجودگی
بھی ہے(یہ اور بات ہے کہ اقوام متحدہ ہمیشہ سے غیر فعل ہی ہے)۔ دنیا جہالت
کے اندھیروں میں غرق ہوا چاہتی تھی کہ قدرت نے دنیا پر آخری بار رحم کھایا
اور ایک ایسے روشنی کے منباء سے آراستہ فرمایا کہ جس کی روشنی رہتی دنیا تک
قائم و دائم رہیگی۔ محمد عربی ﷺ کو دنیا کو آخری بار ترتیب دینے کیلئے
بھیجا اور اس ترتیب کے طریقہ کار کو باقاعدہ تحریری شکل میں قرآن کی صورت
میں رہتی دنیا تک کی رہنمائی کیلئے چھوڑ دیا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اسلام
جسے امن اور سلامتی کے مذہب سے جانا جاتاہے عرب کی سرحدوں سے نکلا تو سکندر
کی آدھی سے زیادہ دنیا پر چھاگیااور زمین و سمندر تک میں گھوڑے دوڑاتے چلے
گئے۔
دشمنانِ اسلام چوکنے ہوئے اور جنگ کے میدان سجنے لگے ، اسلام کی شمع کے
پروانے جانوں کے نظرانے دیتے گئے اور اس شمع کی روشنی بڑھاتے گئے۔آخر کار
اغیار نے یہ بات سمجھ ہی لی کہ کس طرح ان دنیا سے بے پرواہ مسلمانوں کے
گھوڑوں کو نکیل ڈالی جاسکتی ہے کیونکہ انکے جسموں پر زخم داغ کر انہیں انکے
مقصد سے نہیں روک سکتے ۔ اسکے لیئے انکے ایمان اور انکی اخلاقیات پر کاری
ضرب بہت احتیاط اور انکی اپنی سہولت کے لحاظ سے لگانی پڑے گی یعنی انہیں
دنیا کی پرواہ کرنا سیکھانا پڑے گی۔ ذرا غور کیجئے مغرب اور مشرق دو اتنی
مختلف تہذیبیں ہیں کہ دونوں کا آپسی کوئی میلاپ نہیں دیکھائی دیتامگر پہل
مغرب نے کی آپ کو اپنی تہذیب کی رعنائیوں سے روشناس کرایا اور رنگ و سرور
میں ایسا غرق کیا کہ آج تک پستیوں میں گرتے ہی جارہے ہیں۔ جی ہاں ! یہ کوئی
خاص بات نہیں ہے کیونکہ ہم سب اسی حمام میں بسنے والے ہیں۔ جس کا منہ بولتا
ثبوت سعودی عرب میں سینما گھروں کے کھولے جانے کے اقدام کو سراہا گیا۔ کیا
سعودی حکومت اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ اگر یہ سہی تھا تو اسے بند ہی
کیوں کیا گیا تھا ؟
مولانا الطاف حسین حالی نے کتنی خوبصورتی سے مسلمانوں کی بے بسی رقم کی ہے
کہ
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعاہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
دنیا کو تہذیب و تمدن کی اہمیت سے روشناس کرانے والوں کو آج زندگی کے اصول
سیکھائے جا رہے ہیں ، امن کا پیغام دنیا کو دینے والوں کو آج امن سے رہنے
کی تلقین کی جارہی ہے، دنیا کو وقت کی اہمیت کا پتہ دینے والوں کو وقت کی
قدر کرنا سیکھائی جا رہی ہے۔ جن کے لئے دنیا سجائی گئی ہے انہیں ہی دنیا ،
دنیا سے نکالنے پر تلی ہوئی ہے۔ اتحاد اور بھائی چارے کا درس سنتے چلے
جارہے ہیں اور آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مسلسل تقسیم ہوئے جا رہے ہیں۔ آج
جتنے مسلمان تقسیم ہوچکے ہیں شائد ہی کسی اور مذہب کے ماننے والوں میں اتنی
افراتفری ہو۔
اس وقت ہمارے سامنے دو طرح کی صورت حال ہیں ایک تو یہ کہ قرآن اور حدیث کی
روح سے رونما ہونے والے واقعات کے ہونے کا انتظاراپنے اپنے گھروں میں بیٹھ
کر کریںیا پھر کچھ نا کچھ سد باب کرنے میں یکسوئی سے مگن ہوجائیں۔ یکسوئی
سے مگن ہونے سے مراد یہ ہے کہ پھر کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہیں
رکھنا ہے اور صرف اور صرف اسلام کو اسکی اصل روح کے مطابق نافذالعمل کرنے
کیلئے برسرپیکار ہوجانا ہے ،گوکہ اسطرح کی بات قطعی ناقابل ہضم ہے ہمارے
ذہن سے جو فوری رد عمل آئیگا وہ یہی ہوگا کہ نہیں نہیں ایسے تو سب کچھ ہی
تباہ و برباد ہوجائیگا اور سب برباد ہوگیا تو ہماری وہ تمام تر عیاشیوں کا
کیا ہوگا کیا ہم اپنی زندگی کو واپس غاروں اور پہاڑوں میں لے جائینگے۔ ایک
طرف توامتی ہونے کے داعی بنے پھرتے ہیں اور اپنی زندگی اللہ اور رسولﷺ کی
رضا اور عطاعت کیلئے وقف اور بتائے ہوئے راستے پر چل کر گزارنے کی قسمیں
کھاتے نہیں تھکتے ۔ مگر جیسے ہی بات آتی ہے کسی عملی کردار ادا کرنے کی تو
اپنے دائیں بائیں دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ جہاں اس عملی کردار سے مراد اللہ
کی راہ میں جہاد کرنے کے ہیں تو دوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے
اصولوں پر زندگی کے معاملات کو استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہم کسی بھی
طرح سے اپنے آپ کوامتِ محمدی ﷺ ثابت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ جسکی اعلی ترین
مثال یہ ہے کہ بدعنوانوں کی فہرست بغیر مسلمان حکمرانوں کے مکمل نہیں
ہوسکتی ، اسی طرح ہر برے کام کی ترتیب دی جانی فہرست میں مسلمان نا ہوں
ایسا ممکن نہیں۔ کیا یہ کسی بھی لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ آج دنیا میں
موجود مذاہب میں سب سے زیادہ بدنام ہونے والا مذہب کونسا ہے ، اس سے بڑھ کر
یہ کہ مسلمان ہی مسلمانوں کیلئے باعث ندامت اور شرمندگی بنے ہوئے ہیں۔ ہم
ہمیشہ سے دوہرے میعار کی زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں اور اب یہ دوہرا میعار
ایک نئے میعار کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ ہمیں یہی نہیں پتہ کہ ہم اپنی تگ و
دو دنیا کی جنت کیلئے کریں یا پھر مرنے کے بعد ہمیشہ کیلئے حاصل ہونے والی
جنت کیلئے۔ ہماری نئی نسل ترقی کیلئے مغربی تہذیب کو درآمد کرنے پر اگر تلی
نہیں ہے تو ایسا کرنے کا عزم ضرور رکھتی ہے ۔ جسکی بو و باس انکے حلیوں اور
طرز زندگی سے بھی لگائی جاسکتی ہے ۔
بہت ساری چھوٹی چھوٹی غلطیاں کوتاہیاں جنہیں ہم نظر انداز کرتے چلے جاتے
ہیں یا پھر اپنی ساکھ کی قدرو منزلت برقرار رکھنے کیلئے جان بوجھ کر مسکرا
کر گزر جاتے ہیں ۔ ایک دن یہ سب ایک نا ہلنے والے پہاڑ کی مانند سامنے آکے
کھڑے ہوچکے ہونگے۔جیسا کہ آمریکی حکومت کا تازہ ترین اقدام جس میں انہوں نے
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ وہ سمجھ چکے
ہیں کہ ہم ایک چھت کے نیچے جمع ہوکر سوائے اس حکم کو رد کردینے کے اعلان کے
سوا کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ جان چکے ہیں کہ یہ مسلمان اپنے اپنے نجی
مقاصد کیلئے اجتماعیت کو رد کرچکے ہیں یہ ایک گھریلو تعلق سے لے کر ملکی
سطح کے تعلق کوکسی بھی نجی وجہ کے توڑ سکتے ہیں۔ ہم اس خوش فہمی میں مبطلہ
ہیں کہ ایسے مسائل سارے مسلم ممالک کو امت کی شکل میں کھڑا کرنے میں مدد
فراہم کرینگے۔
اب خود ہی مذکورہ حالات و معاملات کا جائزہ تھوڑی سی باریک بینی سے لیجئے ،
ساری وضاحتیں کھل کر سامنے آجائینگی۔ہم آج بھی چھوٹے چھوٹے بکھیڑوں میں
الجھے ہوئے ہیں اور الجھتے ہی جا رہے ہیں۔ اب سطحی سوچ اور فکرقطعی طور پر
سلب کرنے کا وقت شروع ہوچکا ہے ، الحمدوللہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا
ایمان ہے کہ وہ سب ہوکر رہے گا جو آسمانوں میں طے پایا ہوا ہے اور ہمارے
پیارے نبی ﷺ نے ہمیں ۱۴۰۰ سال پہلے سمجھااور بتا دیا ہے ۔مضمون پر بہت
دھیان سے کام کر رہا تھا کہ شاعر مشرق امت کا درد رکھنے والے اور امت کی
حقیقت کو سمجھنے والے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کایہ شعر نظروں کے سامنے آگیا
اور اس شعر کے ساتھ جوکہ فارسی زبان میں کہا گیا ہے اس مضمون نما کا اختتام
کرتا ہوں؛
ارجمندی از شعارش می بری
من ندا نم تو توئے یا دیگری
( اس معنی کچھ اسطرح ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ تو تو ہے یا غیر ہے ، یعنی
تیری حیثیت غیر کی نقالی میں گم ہوگئی ہے اور یقیناًتو تو نہیں رہا)
|