’ٹائمز میگزین‘ کا شمار دنیا کے مشہور ترین جریدوں میں
ہوتا ہے۔ ۱۹۲۷ سے یہ ادارہ ہرسال کسی ایک فرد کو اس کےخیال و نظریہ یا شئے
کی مقبولیت و اثر پذیری کی بنیاد پر اہم ترین شخصیت قرار دیتا ہے۔ اس سال
یہ اعزاز خواتین کی جنسی ہراسانی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والی
اجتماعیت کو دیا گیا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے خواتین کےمسائل کی
نوعیت اس قدر سنگین ہوگئی ہےکہ عالمی سطح پر مظالم ِ نسواں کے خلاف خاموشی
توڑنے والی بیداری کو سال کی اہم ترین تحریک قرار دیا گیا۔سماجی رابطے کی
ویب سائٹ ٹوئٹر پر ’می ٹو (MeToo#)‘ یعنی ’میں بھی‘ کے عنوان سے ٹوئٹر پر
اپنی مظلومیت کی داستان رقم کرنے والی ان خواتین کا تعلق افریقہ کےکسی وحشی
قبیلے سے نہیں بلکہ دنیا کے مہذب ترین اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے
ممالک سے ہے ۔ امریکی جریدے کے مطابق یہ ان مردوں اور خواتین کی آواز ہے
جنہوں نے بولنے کی ہمت کی ۔ ٹوئیٹر پر اس ٹرینڈ کا آغاز کرنے والی سماجی
کارکنترانہ برکے نے کہا ’ ابھی تو یہ آغاز ہے، یہ ایک لمحہ نہیں بلکہ ایک
تحریک ہے اور ابیر تو حقیقت میں کام کا آغاز ہوا ہے‘۔ یہی بات اس ہفتہ
ممبئی میں منعقد ہونے والی خواتین کی کانفرنس میرا آنچل میری پہچان کی
ناظمہ سلمیٰ بیگ نے اخباری نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے پریس کانفرنس
میں کہی۔
ٹائمز کے مدیر اعلیٰ نے بتایا کہ ’می ٹو (MeToo#)‘ یعنی ’میں بھی‘ نامی مہم
بہت تیزی کے ساتھ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر پھیلی جس سے ایک بہت بڑی
تبدیلی رونما ہوئی۔ معاشرے کی سیکڑوں خواتین نے ٹرینڈ کے ذریعے ہمت کرتے
ہوئے اپنے خلاف رونما ہونے والےجنسی ہراسانی کےواقعات کو بیان کیا جبکہ اس
ٹرینڈ میں کچھ مردوں نے بھی حصہ لیا۔ ا س بحثمیں امریکی سیاست، میڈیا اور
فلمیدنیا کی مشہور شخصیات کے خلاف الزامات منظر عام پر آئے۔ان میں سے کئی
افراد کو ان کے اداروں نے فارغ کردیا اور تحقیقات شروع کردی گئی۔فلمساز
ہارویوائنسٹن کا آسکر اعزاز چھین لیا گیا لیکن اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔
مجرمین کواس تفتیش کے نتیجے میں قرار واقعی سزا ملے گی یا نہیں یہ تو نہیں
کہا جاسکتا لیکن خواتین کی جنسی ہراسانی کا زہر سماج میں کس حدتک پھیل چکا
ہے یہ راز ضرور طشت ازبام ہوگیانیز حقوق نسواں کے باب میں مغرب کے بلند
بانگ دعووں کی پول بھی کھل گئی۔ اس چشم کشا تحریک میں مغرب کی آنکھ موند
کرپیروی کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی بحالی کا دعویٰ کرنے والے مرعوب
دانشوروں کے لیے تازیانۂ عبرت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سال ٹائمز پرسن آف ایئر کی دوڑ میں دوسرے نمبر
پر رہے جبکہ پچھلے سال انہیں یہ اعزاز مل چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود
ٹرمپ پر بھی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے سنگین الزامات ہیں ۔ گزشتہ سال
انتخابی مہم کے دوران یہ الزامات لگے تھےاور اس سال پھر سے انہیں دوہرایا۔
ٹرمپ نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ تفتیش تک کروانے کے روادار نہیں ہیں لیکن
۵۰ خواتین اور ۳ مرد قانون سازارکان نے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے۔یہ سب
حسبِ اختلاف کے لوگ ہیں ابھی تک کسی ریپبلکن خاتون رکن پارلیمان بھی ٹرمپ
کے خلاف زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکی ہے۔ یہ اقتدار کا لالچ ہے، خوف ہے
یا عصبیت ہے کوئی نہیں جانتا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ کی پریس سیکریٹری
سارہ ہکابی سینڈرزان کی صفائی پیش کررہی ہیں ۔ ایک عورت ہونے کے باوجود وہ
مظلوم خواتین بجائے ظالم مرد کی حمایت کرنے پر مجبور ہیں۔ خواتین سے دست
درازی کےمعاملے میں مینیسوٹاسےڈیموکریٹ سینیٹر سین فرانکین استعفیٰ دے چکے
ہیں مگر ٹرمپ کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے الابامہ میں رائے
مورنامی شخص کو اپنی پارٹی کا امیدوار بنادیا جس پر خواتین کی جنسی ہراسانی
کے کئی الزامات ہیں اور عوام نے اسے شکست دے دی ۔
ڈونلڈ ٹرمپ تو خیر اپنے عہدے کے تحفظ میں مجبور ہیں مگر سابق امریکی صدر
جارج ایچ بش نے تو ان الزامات کا عتراف کرکے معافی مانگ لی ۔بش کے ترجمان
جم میک گرا کا کہنا ہے کہ ’ان کے دل میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ وہ جان بوجھ
کر کسی کو نقصان یا یا تکلیف پہنچانا نہیں چاہتے تھے پھر بھی وہ معذرت ہیں
۔ تقریب میں خواتین کو سہلانے کا مقصد اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا تھا۔ وہیل
چیر پر ہونے کے سبب مجبوراً ان کا ہاتھ ساتھ کھڑی خاتون کی پشت کو چھوجاتا
ہے‘۔قابلِ مذمت پہلو یہ ہے کہ بش کی مجبوری کا ہاتھ کسی مرد کے پیچھے نہیں
جاتا۔اس بودے جواز سے چراغ پا روسلیننے کہا کہ وہ نہ سو سکتی ہیں نہ بیٹھ
سکتی ہیں ۔ قصر ابیض کی سابق خاتون ملازمہ نےاعتراف کیا کہ یہ تو عام سی
بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر محل کے اندرخاتون اول کی موجودگی میں عام خواتین
غیر محفوظ ہیں تو باہر کیا ہوگا؟ ان واقعات سے امریکی معاشرے کے اخلاقی
انحطاط کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
خواتین پر مظالم کا مسئلہ صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے بلکہ برطانوی ارکان
پارلیمان کے ذریعہ خواتین پر جنسی حملوں کے الزام پر بھی سرکاری حلقوں میں
تشویش کا اظہار کیا جارہاہے۔ برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ اور وزیراعظم تھریسا
مے ہیں اس کے باوجود بعض ایوان عام کے ارکان پر جنسی ہراسانی کے الزامات
تشویشناک ہیں۔ایوان میں برسرِ روزگار ملازمات کے واٹس ایپ گروپ میں متعدد
خواتین نے بعض ارکان پارلیمان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔اس گروپ
میں متاثرہ خواتین نے جنسی حملوں میں ملوث اراکین کے نام بھی ظاہر کیے تاہم
منظر عام پر لانے سے گریز کیا ہے ۔انٹرنیٹ پر ہیش ٹیگ می ٹو (#MeToo) نامی
مہم میں شامل ہوکر وطن عزیز کی مختلف خواتین نے ان کو ’جنسی طور پر ہراساں
کرنے والے درجنوں پروفیسروں، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں تک کے نام
لیے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت
میں جنسی ہراسانی کی شکایت درج کرانا خاصہ پیچیدہ عمل ہے۔ شکایت کنندگان کی
اسپتالوں اور تھانوں میںتذلیل کی جاتی ہے اور بعض پولیس اہلکار شکایات درج
کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عدالتوں میں بھی متاثرہ کو
’نازیبا تہمتوں‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بھارتی صحافی اور انسانی حقوق
کی کارکن انجی پینو نےایسے۶۰ہندوستانی پروفیسروں کے نام کی فہرست جاری کی
ہےجو مبینہ طور پر جنسی حملوں میں ملوث ہونے کے سبب بیرون ملک مقیم
ہیں۔بنارس ہندو یونیورسٹی کی طالبات پر بربریت سے خواتین پر مظالم کا
معاملہ ذرائع ابلاغ میں آیامگر بہت جلد کافور ہوگیا۔
ان مظالم میں سیاسی سرپرستی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میگھالیہ میں ۵۱
سالہ رکن صوبائی اسمبلی جولیس دورپھنگ کو ۱۴ سال کی لڑکی کی آبروریزی کے
الزام میں گرفتار کیا جاچکا ہے۔اس سے قبل بی جے پی کے ضلعی رہنما رام سنگما
گرفتار ہوچکا ہے۔میرٹھ میں ایک ۱۰۰ سالہ بزرگ خاتون کی عصمت دری کے بعد دم
توڑ چکی ہے اورعصمت دری کا دارالخلافہ کہلانی والی دہلی میں نربھیا کی موت
کے بعد سخت قوانین کے باوجود ایک ۱۱ ماہ کی بچی ہوس کا شکار ہوئی ہے۔ اس
صورتحال میں جماعت اسلامی ہند حلقۂ خواتین اور گرلز اسلامک آرگنائزیشن کے
زیر اہتمام ۱۶ اور ۱۷ دسمبر کو ممبئی کے وائی ایم سی اے میدان منعقد ہونے
والی خواتین کانفرنس اہمیت کی حامل ہے۔اس موقع پر خواتین کے حقوق کے ساتھ
انہین سیلف ڈیفنس کے متعلق معلوماتبھی دی جائیگی۔ اس طرح کی بیداری
سےیقیناً خواتین پر ہونے والے مظالم میں کمی آئیگی اور درندگی کا شکار
معاشرہ انسانیت کا گہوارہ بنے گا۔ |