بچوں کی تربیت مشکل ترین اور صبر آزما کاموں میں سے ایک
کام ہے۔ ہمارے ہاں جیسا کہ ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے وہی معاشرتی اقدار بھی
تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ چند سال پہلے تک ہر کام بغیر تربیت محض ڈگری
کی بنیاد پر کیا جاتا تھا لیکن اب اس حوالے سے تبدیلی آرہی ہے اور ہر شعبے
میں تربیت اور ٹریننگ کو ضروری سمجھا جارہا ہے۔ خاص طور پر اساتذہ کی تربیت
کرنا نہایت ہی ضروری ہے امر ہے۔
لیکن میرا آج کا موضوع نئے ہونے والے والدین کی تربیت اور پھر ان کے ذریعے
بچوں کی تربیت ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جہاں شادی سے
پہلے نوجوانوں کی تربیت کی جائے اور ان کو سکھائے جائے کہ شادی کے بعد میاں
بیوی کا رشتہ کیسے نبھانا ہے اور پھر بچوں کی تربیت میں کن کن اصولوں کا
خیال رکھنا ہے۔ چنانچہ بغیر تعلیم اور بغیر تربیت کے شادی ہوجاتی ہے جس کا
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پہلے دو تین سال خوب لڑائیاں ہوتی ہیں، کچھ کو طلاق
ہوجاتی ہے اور کچھ یہ تین سال خیریت سے گزار لیں تو پھران تین سالہ تجربات
کی روشنی میں تربیت مکمل ہوجاتی ہے اور لڑائیاں کافی کم ہوجاتی ہیں۔
اگلا مرحلہ بچوں کی تربیت کا شروع ہوتا ہے تو والدین خصوصا والد کا رویہ
بچوں بالخصوص لڑکوں کے ساتھ معاندانہ ہوتا ہے، وہ اسے بچہ نہیں بلکہ اپنا
رقیب سمجھ کر برتاو کررہا ہوتا ہے، پھر دوسرا بچہ ہوتا ہے پھر تیسرا ہوتا
ہے اس طرح آٹھ دس سال گزر جاتے ہیں اور مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد باپ
اور ماں کو صحیح ماں باپ بننا آجاتا ہے، چنانچہ شادی کے دس پندرہ سال بعد
جو بچہ پیدا ہوتا ہے یعنی عام طور پر آخری بچہ اس کی ایسی تربیت ہوتی ہے
جیسے واقعتا ہونی چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں اکثر لوگوں کا پہلا بچہ
بہت خراب اور آخری بچہ بہت بہترین، ذہین، فطین اور عمدہ انسان ہوتا ہے،
کیونکہ اس کی تربیت وہ والدین کررہے ہوتے ہیں جن کو بچوں کے ساتھ برتاو کا
پندرہ سالہ تجربہ ہوچکا ہوتا ہے۔
دوسری نہایت ہی اہم بات جس کی طرف توجہ مبذول کروانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
اکرموا اولادکم۔ اپنی اولاد کا اکرام کرو۔
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: اکرموا اولادکم فانھم خُلقوا
لِزمانِ غیرِ زمانِکم۔ یعنی اپنی اولاد کا اکرام کرو، یہ تمہارے زمانے کے
لئے نہیں بلکہ اگلے زمانے کے لئے پیدا کیے گئے ہیں۔
یعنی جو بچے آج ہمارے ہاتھ میں پل رہے ہیں انہیں اللہ نے آج کے لئے نہیں
بلکہ کل یعنی آنے والے زمانے کے لئے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ
عنہ کے اس فرمان کی روشنی میں ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ہم بچوں کے
ساتھ آج کو دیکھ کر ڈیل نہ کریں بلکہ مستقبل کے حالات اور دنیا کو دیکھ کر
ڈیل کریں۔ لہٰذا بچوں کی تربیت کا اصول یہی ہونا چاہیے کہ ہماری نظر اگلے
بیس پچیس سال پر ہونی چاہیے کہ اس وقت کی دنیا کیسی ہوگی اور پھر ہم اسی کے
مطابق بچوں کو تیار کریں۔
ہم کیا کرتے ہیں؟ ہم اکثر بچوں کو بیس سال پیچھے اپنے بچپن کے مطابق چلانے
کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں مجھے سکول جاتے وقت ایک روپیہ بھی
قسمت سے ملتا تھا اور تو روز کے بیس روپے مانگ رہا ہے۔ میں نے پہلی کلاس
میں تختی لی تھی اور پورے پانچ سال تک اسی پر لکھتا رہا اور تو ہر تیسرے دن
کاپی مانگ رہا ہے۔آج کا استاد کہتا ہے میں نے ماریں کھا کھا کر پڑھا ہے اور
مجھے بچوں کو ڈانٹنے سے بھی منع کیا جارہا ہے۔
تو یاد رکھیے! اگر آپ ماضی کے بیس سالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بچوں کی تربیت
کریں گے تو ان بچوں کو ضائع کربیٹھیں گے اور یہ بچے دو ٹانگوں پر چلنے والے
حیوان کے علاوہ کچھ نہیں کہلائیں گے۔بچوں کی تربیت پچھلے بیس سالوں کو
مدنظر رکھ کر نہیں بلکہ آنے والے بیس سالوں کو سامنے رکھتے ہوئی کرنی چاہیے
جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی ہے۔اگر بچوں کی صحیح تربیت
کرنا چاہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت انس اور دیگر بچوں کے
ساتھ رویے کو مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی دنیا کی کھوج بھی لگائیں
اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اگلے بیس سال بعد دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔
آپ نئی نئی کتابیں اٹھائیں، اخبارات کے ٹیکنالوجی صفحات پڑھیں، انٹرنیٹ کو
کھنگالیں اور معلوم کریں جب آپ کا بچہ تیس سال کا جوان ہوگا اس وقت دنیا کا
نقشہ کیا ہوگا؟ اس وقت کونسی زبان راج کررہی ہوگی، لوگ سفر کیسے کریں گے،
لوگوں کا کاروبار کیا ہوگا، مشکلات کیا کیا ہوں گی ، کیا کیا تبدیلیاں
ہوچکی ہوں گی وغیرہ۔
یہ ساری معلومات اگر آپ کے ذہن میں ہوں گی تو آپ بہترین طریقے سے بچوں کی
تعلیم اور تربیت کا سامان کرسکیں گے۔
اسی طرح دین کی سربلندی کی جدجہد کرنے والوں کو تو خاص طور پر مستقبل کی
دنیا اور اس کے حالات سے واقف ہونا چاہیے، تاکہ وہ پہلے سے ہی اس کے مطابق
اپنی پلاننگ کرسکیں۔ یاد رکھیں آپ دنیا کے اس ارتقائی عمل کے آگے رکاوٹ
نہیں بن سکتے بلکہ اسے سیکھ ، سمجھ کر اپنے حق میں استعمال ضرور کرسکتے
ہیں۔ لہٰذا مستقبل کے بیس تیس سالوں میں کیا کیا ہونے والا ہے اس کی ایک
جھلک بھی ملاحظہ فرمالیں۔
1۔آج ہر کسی کی خواہش ہے میرا بچہ ڈاکٹر بنے، لیکن یاد رکھیں اگلے پندرہ
بیس سال بعد کلینک چلانے والے ڈاکٹر اور حجام چلانے والے نائی میں صرف پیشے
کا فرق ہوگا۔
2۔پاکستان سمیت دنیا بھر میں 2030ءتک تمام گاڑیاں یہاں تک کہ ٹرک بھی بجلی
پر چلیں گے، پٹرول ڈیزل کا زمانہ قصہ پارینہ بن چکا ہوگا اور ہم اپنے پوتوں
کو کہانی سنایا کریں گے کہ ہمارے دور میں گاڑیاں پٹرول سے چلتی تھیں۔ بالکل
ایسے ہی جیسے ہمارے دادا ہمیں اسٹیم انجن والی ریل گاڑی کی کہانی سناتے
تھے۔
3۔ اگلے دس سال تک سڑکوں پر ایسی گاڑیوں کی بھر مار ہوگی جن میں سواریاں تو
ہوں گے لیکن ڈرائیور کوئی نہیں ہوگا، گاڑی خود چلے اور رکے گی۔
4۔اگلے چند سالوں میں کاپیاں پنسلیں ختم ہوجائیں گی،جن کی جگہ ایک ہی پنسل
اور ٹیب ہوگا۔ یہاں تک کہ کتابیں بھی ختم ہوجائیں گی اور ان کی جگہ ورچوئل
رئیلٹی ٹیکنالوجی آجائے گی، جس کے ذریعے نہ صرف پڑھایا جائے گا بلکہ ماضی
کی تاریخ کو حقیقت کے مصنوعی روپ میں دکھایا بھی جائے گا۔
5۔ مانیٹر تو ختم ہوچکے ہیں اگلے چند سال بعد ایل سی ڈیز بھی ختم ہوجائیں
گی اور ان کی جگہ ہولوگرام ٹیکنالوجی کا راج ہوگا۔
6۔ ہولوگرام ٹیکنالوجی کی بدولت آج کے جدید ترین موبائل فون بھی قصہ پارینہ
بن جائیں گے۔ آج کا جدید ترین موبائل آئی فون ٹن بھی لوگ اپنے پاس رکھتے
ہوئے شرمائیں گے، کیونکہ ان سمارٹ فون کی جگہ کنگن نما جدید کڑے آجائیں گے
جن پر نہ تو کوئی سکرین ہوگی اور نہ بٹن۔ بس ضرورت کے وقت آپ کے ہاتھ پر یا
کھلی فضا میں سکرین اور کی بورڈ بن جائے گا جسے آپ یوز کریں گے۔
7۔پاکستان سے امریکا کا ہوائی سفر جو تقریبا بیس گھنٹے پر مشتمل ہے صرف ایک
گھنٹے کا رہ جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے آپ کراچی سے بیٹھے اور اسلام آباد
اتر گئے۔
8۔2025ءتک موجودہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ ختم ہوجائیں گے اور ان کی جگہ ایسے
کمپیوٹر آجائیں گے جو نہ صرف سوچتے سمجھتے ہوں گے بلکہ جواب بھی دیں گے۔
9۔سب سے بڑی تبدیلی AI یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی ہے، جسے مصنوعی
ذہانت کہا جاتا ہے۔ اگلے چند سالوں میں جیتے جاگتے، بولتے سمجھتے، ہنستے
روتے، اور دکھ درد محسوس کرتے 80فیصدانسان نما روبوٹ ہر جگہ عام ہونگے۔
10۔ اگلے چند سال بعد دنیا کے چپے چپے پر انٹرنیٹ کے سگنل آرہے ہوں گے اور
وہ بھی بالکل مفت۔
11۔اگلے پندرہ بیس سال تک مریح پر دس لاکھ انسانوں کا ایک بڑا شہر آباد
ہوگا، اور لوگ دلہن لینے بارات لے کر مریح پر جایا کریں گے۔
12۔اگلے چند سالوں بعد تھری ڈی پرنٹر عام ہوجائیں گے، جن کے ذریعے آپ اپنے
لیپ ٹاپ یا کمپیوٹر پر اپنی مرضی کا گھر یا گاڑی ڈیزائن کریں گے اور پھر
جونہی بٹن دبائیں گے پرنٹر سے اسی طرح کا گھر یا گاڑی تیار ہوکر نکلے گی۔
13۔ اگلے چند سالوں میں دنیا میں کوئی شخص کسی اور ملک کے باشندے سے
لینگویج کے لحاظ سے اجنبی نہیں رہے گا ہر کوئی دوسرے کی بات کو ٹھیک ٹھیک
سمجھ رہا ہوگا۔
|