درندوں کا اصل علاج

ایران میں ایک سات سالہ بچی اچانک لاپتہ ہو جاتی ہے۔ بچی کے والدین اس کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ پولیس میں رپورٹ کی جاتی ہے۔ لیکن بچی کا کچھ پتہ نہیں چلتا، جب یہ بات شوشل میڈیا پر آئی تو ایرانی عوام نے اس واقع پر بہت زیادہ غم غصے کا اظہار کیا۔ پولیس اپنی کوششیں مزید تیز کر دیں۔ بالاآخر پولیس کو بچی کی تلاش میں کامیابی ملتی ہے لیکن اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔پچی تو ملی لیکن زندہ نہیں لاش کی صورت میں بچی کی لاش بیالس سالہ اسماعیل جعفرزادہ نامی شخص کے گھر کے گیراج سے ملتی ہے۔ پوسٹ مارٹم سے یہ بات سامنے آئی کہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد اسے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل اور زیادتی کا اعتراف اسماعیل نے پولیس کی تفتیش میں کر لیا۔ بچی کے ساتھ ہونے والے اس درندگی کے واقعہ کا نوٹس ایرانی صدر حسن روحانی لیتے ہیں اور اس واردات کو ’دہشت ناک‘ قرار دیتے ہوئے حکم جاری کرتے ہوئے فوری اور مؤثر انصاف کی ہدایت کرتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ہفتے کے اندر اسماعیل پر فرد جرم عائد کر دی اور چند ہفتوں میں اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی شروع کردی۔پہلے مقامی عدالت نے اسماعیل کو سزائے موت سنائی اور پھر ملک کی بڑی عدالت سپریم کورٹ نے سزائے موت کی توثیق کر دی۔ اور ٹھیک واردات ہونے کے چار ماہ بعد مجرم اسماعیل کو صوبے اردبیل کے شہر پارس آباد میں سر عام پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔مجرم کو سرے عام پھانسی لگانے کی ویڈیو بنائی گئی جسے بعد ازاں سرکاری نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر بھی جاری کیا گیا۔اس سر عام پھانسی کے بعد اردبیل کے پراسیکیوٹر ناصر عطابیتی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس مجرم کو سرعام پھانسی دینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو تحفظ کا احساس ہو اور اگر کوئی ایسا جرم کرے گا تو اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ایرانی حکومت سزائے موت پر عملدرآمد کے بارے میں اعداد وشمار تو جاری نہیں کرتی ہے تاہم انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سن دو ہزار سولہ میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے پانچ ممالک میں ایران بھی شامل ہے۔

اب ایک واقعہ یہاں کا بھی ملاحظہ فرمائیں 8 سالہ بچہ رضوان جس کی لاش درس گاہ کی عمارت کے ساتھ ملحقہ گلی میں پڑی ملتی ہے۔ محلے کے لوگ جس کی اطلاع مقامی تھانے میں کرتے ہیں پولیس جائے وقوع پر آتی ہے اور شواہد جمع کر کے تفتیش شروع کردیتی ہے پولیس شک کی بنیاد پر مدرسے کے کچھ لڑکوں اور ایک استاد کو حراست میں لے لیتی ہے۔ جن سے تفتیش کی جاتی ہے تو ان میں سے ایک لڑکا جس نام بھی رضوان تھا اس کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ پولیس باقی لوگ کو چھوڑ دیتی ہے اور اس سے مزید تفتیش شروع کردیتی ہے۔ رضوان اپنے ہم نام 8 سالہ بچے کے قتل کا اعتراف کر لیتا ہے اور پولیس کو بتاتا ہے کہ وہ استاد کی غیر موجودگی میں بچے کو استاد کے کمرے میں لے جاتا ہے جو دوسری منزل پر واقع تھا۔رضوان اس بچے سے جنسی زیادتی کی کوشش کرتا ہے اور ناکامی پر اس بچے کو کھڑکی سے دھکا دے دیتا ہے۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ سات ماہ قبل یہاں زیر تعلیم بچہ نور آغا جس کی عمر سات سال تھی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔ اور اس کی لاش بوری میں بند کر ویرانے میں پھینک آیا تھا۔ رضوان نے بتایا بچپن میں استاد اس کے ساتھ زیادتی کرتا تھا جس کا بدلہ وہ باقی بچوں لینے کی کوشش کرتا تھا۔ اگر جیسے ایران میں مجرم کی فوری گرفتاری ہوئی تو یہاں رضوان بھی پہلے قتل کی واردت پر پکڑا جاتا تو ایک اور مصوم مرنے سے بچ جاتا۔ لیکن ہمارے ہاں تفتیش کے روایتی طریقے اور پرانے نظام نے اسے ایک اور قتل کا موقع فراہم کیا۔جبکہ دوسری طرف ایران میں اسی نوعیت وقوع کے چار ماہ کے اندر ملزم کو سرعام پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔

گز شتہ دونوں سے سوشل میڈ یاایک پانچ چھ سال کی بچی لاش کی تصویر گردش کر رہی ہے جس کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا ۔ وہ بچی بہت پیاری اور مصوم سی تھی اس کی کھلی آنکھیں حکمرانوں اور معاشرے سے سوال کر رہی تھیں ۔ یہ تصویر دیکھ کر ہر درد دل رکھنے والا انسان اپنے آنسو نہ روک پایا ۔ پاکستان میں ایسے واقعات ہر روز ہوتے ہیں ملزمان یا تو پکڑے نہیں جاتے یا پھر پکڑے جائیں تو کمزور تفتیش کی وجہ سے جلد رہا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بچوں کے قتل اور ان پر ہونے والے بہمانہ تشدد و زیاتی کے واقعات کی گزشتہ ماہ ایک رپورٹ انسان حقوق کی طرف سے قومی اسمبلی میں پیش کی گئی، جس کے مطابق یہ انکشاف کیا گیا کہ جنوری 2017 سے جون 2017 تک ملک بھر میں 1764 بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پیش آئے جس میں سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں ریکارڈ ہوئے۔ پنجاب میں زیادتی کے 1089، سندھ میں 490، اسلام ا?باد میں 58، بلوچستان میں 76، خیبر پختونخوا میں 42اور ا?زاد کشمیر میں 9 واقعات پیش آئے۔یہ اعداد و شمار صرف چھ ماہ کے ہیں۔ یہاں میں آپ سامنے 2016 کے اعدادوشمار رکھتا ہوں۔ 2016 کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ برس بچوں سے جنسی زیادتی سمیت اغوا، گمشدگی اور جبری شادیوں کے 4139 کیس رجسٹرڈ ہوئے اور یہ تعداد 2015 کے مقابلیمیں بھی دس فیصد زیادہ ہیں۔ یعنی بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہماری کار کردگی ہر سال دس فیصد کم ہو رہی ہے۔ دو سال قبل قصور کے علاقے سے منظر عام پر آنے والا سیکنڈل جس میں ملزمان 2006 سے 2014 کے دوران 280 سے 300 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اْن کی ویڈیو بناتے رہے اور پھر ان ویڈیوز کی مدد سے ماں باپ کو بلیک میل کر کے لاکھوں روپے بٹورتے رہے۔اور ساتھ ہی یہ ویڈیوز غیر ملکی فحاش ویب سائٹس کو فروخت بھی کرتے رہے۔

ملک کی ایک بہت بڑی آبادی کا حصہ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ جہاں پر تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ ایک ایک گھر میں پانچ سے سات بچے ہوتے ہیں۔ جو غربت کے باعث سکول جا نہیں پاتے۔ یہ بچے سارا دن گلیوں میں کھیلتے رہتے ہیں۔ ورکشاپس میں کام کرتے ہیں پھیری لگا کر چیزیں بیچتے ہیں اور یہ بچے کسی نہ کسی کی درندگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ لیکن درندگی صرف ان پڑھ اور جاہل ہی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہوئے بھی شرم آتی کہ بچے اب سکولوں میں بھی درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں سرگودھا میں درندگی کا سکینڈل بھی سامنے آ چکا ہے جس میں سکول کا استاد بچوں کے ساتھ زیادتی کرتا رہا ہے۔بچے تو اپنیگھروں میں بھی غیر محفوظ ہیں۔ گھروالوں کے تشدد یا پھر کسی رشتہ دار ہمسائے کی درندگی کا نشانہ بن جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں بچے جرائم پیشہ افراد کے لئے آسان ٹارگیٹ ہوتے جا رہے ہیں۔ امیر لوگ غریب کے بچے ٹھیکے پر لے آتے ہیں وہ ان کو کا زر خرید غلام سمجھتے ہیں۔ یہ امیر کبیر دل کے چھوٹے لوگ ان بچارے بچوں کو بامشکل سے دو وقت کی روٹی دیتے ہیں اور بدلے میں سارا دن ان بچوں سے مشقت کرواتے ہیں۔ یہ محلوں میں رہنے ظالم تھوڑ سی غلطی کی صورت میں ان مصوموں پر بہمانا تشدد کرتے ہیں۔

ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا بڑھنا ایک تشویش ناک پہلو ہے۔موجودہ دورمیں ہم اپنے کو کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوتے جا رہے ہیں ہمیں بچوں کے تحفظ کے لئے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بازار میں عموماً بچوں کے استعمال کی اشیاء چھوٹے سائز کی ملتی ہیں چھوٹوں کے لئے چیزیں بھی چھوٹی اور ان تحفظ کے متعلق قانوں بھی ان اشیاء کی طرح چھوٹا ہے اس چھوٹے قانون کی وجہ ملزمان عموماً ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں تفتیش کمزور ہونے کی وجہ سے کیس سے بھی بری ہو جاتے ہیں۔ بچوں کے تحفظ کے لئے ہمیں بھی ایران اور دیگر خلیجی ممالک کی طرح ایسے ملزمان کو سرعام پھانسی دینی چاہیے تب جا کر معاشر سے اس قسم کے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہمارے بچے ایک تحفظ کے آزاد ماحول میں پرورش پا کر ایک مضبوط شہری بن کر آئیں اور وہ اپنے سے چھوٹوں کو تحفظ فراہم کریں۔ اور ایسا نہ ہو اپنے ساتھ بچپن میں ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ کمزورں اور مصوموں سے لینا نہ شروع کردیں -

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 144750 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.