سیکھنے کا عمل جسے تعلیم بھی کہتے ہیں ا یسا ہے کہ آدمی
گود سے گور تک سیکھتا ہے مگر اس عمل کے باوجود اپنے علم کو کبھی مکمل نہیں
کہہ سکتا۔ سائنس کہتی ہے کہ بچہ کے سیکھنے کی ابتدا ماں کے پیٹ سے ہوتی ہے
۔ وہ ماں کے پیٹ میں ماں اور باپ کے رویے اور طرز عمل سے سیکھتا ہے اور
وہاں ان سے بہت کچھ سیکھنے کے بعد دنیا میں آتا ہے۔ پیدا ہوتے وقت اس کی
شخصیت 30 فیصد ڈویلپ ہو چکی ہوتی ہے۔مذہب کہتا ہے فرشتے انسان کو قبر میں
بہت کچھ سکھا تے ہیں ۔ تو سچ یہ ہے کہ سیکھنے کا عمل لا محدود ہے کہ کبھی
ختم نہیں ہوتا۔جامعہ پنجاب کا ادارہ تعلیم و تحقیق اساتذہ کو تعلیم اور
ریسرچ کیلئے تیار کرنے اور تعلیم کے بارے نئے رحجانات اور نئے تجربات سے
آگاہی اور ان سے استفادہ حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہاں کام کرنے
والے استادوں کے استاد ہیں۔ استاد کی عظمت ہی کیا کم ہے استادوں کے اساتذہ
کی عظمت کااندازہ کوئی کیسے لگائے گا۔
آجکل ڈاکٹر رفاقت علی اکبر ادارہ تعلیم و تحقیق کے ڈائریکٹر ہیں۔ جمود سے
انہیں نفرت ہے۔ ہر وقت کچھ کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ ادارہ تعلیم و تحقیق
میں اس وقت پچاس سے زیادہ جز وقتی اساتذہ کام کر رہے ہیں۔ ان تمام اساتذہ
کو ادارے کے کلچر سے روشناس کرانے اور ادارے کے مخصوص طرز تدریس سے آشنا
کرنے کے لئے ڈاکٹر صاحب نے چند دن پہلے ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد
کیا۔ابتدائیہ بھی ڈاکٹررفاقت ہی کا تھا جس میں انہوں نے بہت خوبصورت باتیں
کیں ۔ انہوں نے کہا کہ استاد معمار قوم ہیں جب کہ استادوں کے استاد ملک کے
آرکیٹیکٹ ہیں۔ تدریس واحد پیشہ ہے جس کا ہر پہلو ہر لحاظ سے مثبت ہے اور اس
میں کوئی منفی پہلو نہیں۔دیکھا گیا ہے کہ اولاد عام طور پر اپنے والد کا
پیشہ اپناتی ہے۔ تدریس پیشہ پیغمبری ہے۔ دنیا کے پہلے پیغمبر حضرت آدم تھے۔
استادی ان کا پیشہ تھا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم سب ان کے بیٹے ہیں اور ہم سب ان
کے پیشے کے امین ہیں۔انسان حیوان ناطق ہے جس کو رب العزت نے عقل اور شعور
کی دولت سے مالا مال کیا ہے اور یہ جاندار لوگوں میں افضل ترین ہے۔استاد کی
ذات ان افضل ترین لوگوں کے لئے بھی مینارہ نور ہے اور آج ضرورت ہے کہ استاد
اسی جذبے کے ساتھاپنے فرائض ادا کریں۔ڈاکٹر احمد شیر نے اکیڈیمک رولز کے
بارے بتایا اور ڈاکٹر طارق محمود چوہدری نے موثر تدریس کے حوالے سے شریک
اساتذہ کو مختلف گروپوں کی صورت میں بانٹ کر بہت سیر حاصل بحث کرائی جو
یقیناً ایک مثبت عمل تھا اور جس سے سب کو سیکھنے کا موقع ملا۔
چائے کے وقفے میں وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر سے اچانک ملاقات بہت
خوشگوار تھی۔ لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاھب نے نہ صرف پنجاب یونیورسٹی کے تمام
مافیا پر قابو پا لیا ہے بلکہ یہاں کے ماحول میں خود کو پوری طرح ڈھال لیا
ہے جس کا فائدہ یونیوسٹی کو ہورہا ہے۔ بڑے دوستانہ انداز میں ڈاکٹرصاحب
اساتذہ سے گھل مل گئے اور انہوں نے تمام شریک اساتذہ سے فرداً فرداً بات کی
ان کے مسائل کے بارے پوچھا اور جہاں ضرورت تھی وہاں موقع پر ہدایات دیں۔
وائس چانسلر کے مثبت اور دوستانہ طرز عمل نے اساتذہ کو حوصلہ دیا اور انہوں
نے کھل کر بات چیت کی۔اساتذہ نے کم مشاہرے کی بات کی اور انہیں بتایا کہ
جون 2011 میں پنجاب یونیورسٹی نے جز وقتی اساتذہ کے لئے جو دینا منظور کیا
تھا وہ سات سالہ مہنگائی کے جھٹکے برداشت کرنے کے بعد آج بہت کم ہے ۔ ایک
لیکچرار کو سات آٹھ سو روپے فی گھنٹہ ملتے ہیں۔ جوپورے سیمسٹر کے تیس سے
پینتیس ہزار بنتے ہیں۔ 2011 میں انکم ٹیکس کی چھ فیصد کٹوتی تھی جو آج
پندرہ فیصد ہے۔ یوں چار ماہ پڑھانے کے عوض ایک MPhil یا Phd استاد کو عملی
طور پر بمشکل چھبیس ستائیس ہزار ملتا ہے۔ یہ رقم کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم
آتی ہے۔ خود کو یونیورسٹی کا استاد کہنے والا اگر ماہانہ سات ہزار سے بھی
کم لے اور کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہ ہوتو ساری قوم کے سوچنے کی بات
ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں اس وقت تین ہزار تک فی گھنٹہ
کے حساب سے دے رہی ہیں۔ ڈاکٹر ظفر معین ناصر نے اس پر افسوس کا اظہار کیا
اور کہا کہ وہ دیانتداری سے سمجھتے ہیں کہ جب تک استاد معاشی طور پر خوشحال
نہ ہو وہ صحیح ڈلیور نہیں کر سکتا۔ اچھی تعلیم کے لئے استاد کا آسودہ حال
ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ فوری طور پر اس کا جائزہ لیں
گے اور جلد ہی اساتذہ کے بہتر معاوضے کے لئے عملی اقدامات کریں گے۔
بعد میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ اپنی تعیناتی سے لے کر آج تک
ان کی کوشش ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کو تدریس اور ریسرچ کے لئے بہترین
ماحول ملے اور طلبا کوپڑھانے کے لئے بہترین استاد۔ اس سلسلے میں وہ کلاسوں
میں جانے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ وہ کسی بھی وقت کسی بھی کلاس
میں آ سکتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ موقع پر جا کر جان سکیں کہ طلبا اپنی
تعلیم سے کس حد تک مطمن ہیں ۔ وہ اساتذہ کے مسائل کو بھی پوری طرح جاننا
چاہتے ہیں۔ ورکشاپ میں بیٹھے ہوئے بہت سے جونیئر اور کچھ سینئر اساتذہ کو
دیکھ کر انہیں یقین ہے کہ سینئر لوگ اپنے تجربات سے جونیئر کو آگاہی دیں گے
اور جونیئر لوگ ان کے تجربات سے پوری طرح مستفید ہوں گے۔ انتظامیہ کو بھی
انہوں نے ہدایت کی کہ بزرگ اساتذہ کے تجربات سے نوجوان اساتذہ کو آگاہ کرنے
کا اہتمام کرے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہیں ۔ ہر
وہ بات جس سے اس جامعہ کی بھلائی مقصود ہو میرے لئے خوشی کا باعث ہوتی
ہیاور میں اسے قبول کرتا ہوں۔میں ہر شخص کی سنتا ہوں مگر فیصلہ میرا اپنا
ہوتا ہے اور میرا ہرفیصلہ اس جامعہ اور اس ملک کی فلاح سے جڑا ہے۔بہر حال
یہ ورکشاپ ہر لحاظ سے ایک بہترین سعی تھی۔ اس کا فائدہ اساتذہ کو خوب ہوا
اور جس کے لئے ڈاکٹر رفاقت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ |