حضرت ایوب علیہ السلام

اﷲ تعالیٰ نے انسانوں کی رُشد و ہدایت کے لئے دنیا میں جو نبی بھیجے اُن میں سے ایک نبی حضرت ایوب علیہ السلام تھے۔اہل علم و تحقیق کے مطابق آپ ؑ کا تعلق بنی یقظان سے تھا جو کہ عربی نژاد لوگ تھے۔ یوں آپ ؑ کا زمانہ حضرت ابراہیم ؑ ، حضرت اسحاق ؑ، یا حضرت یعقوب ؑ کا بنتا ہے۔ تورات میں ’’سفر ایوب ‘‘ نامی صحیفے کا تذکرہ ہے جس میں لکھا کہ حضرت ایوب علیہ السلام مشرقی فلسطین میں رہتے تھے اور اُن کے مویشیوں پر سبا کے لوگ حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ صحیفہ عربی زبان میں تھا جس کو بعد میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عبرانی زبان میں منتقل کیا تھا۔بعض مؤرخین نے آپ ؑ کا زمانہ حضرت ابراہیم ؑ کے قریب اور حضرت لوط ؑ کے ہم عصر بتایا ہے۔تاہم مستند قول کے مطابق آپ ؑ عرب ہی تھے۔

حضرت ایوب علیہ السلام بڑے صالح ، حلیم الطبع اور اعلیٰ درجے کے صابر تھے۔یہی وجہ ہے کہ ’’صبر ایوب ‘‘ کو ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔آپ ؑ کا یہ روزانہ کا معمول تھا کہ اُس وقت تک خود کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک دس مساکین کو کھانا نہ کھلادیتے۔یہی حال لباس کے معاملے میں بھی تھا، یعنی آپ ؑ جب کوئی نیا کپڑا زیب تن کرتے تو اس سے پہلے دس غریبوں کو نئے کپڑے پہننے کو دیتے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو بے شمار مال و دولت عطا کی تھی۔ اس کے علاوہ کثرت اولاد سے بھی نوازا تھا۔آپ ؑ اﷲ تعالیٰ کی ان عنایات کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہتے تھے اور شب وروز اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور حمد و ثناء میں مشغول رہتے تھے۔پھر اﷲ تعالیٰ نے آپ ؑ کو ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا۔جس میں آپ ؑ کے سب مویشی ہلاک ہوگئے اور اہل و عیال بھی اکثر فوت ہوگئے۔غرضیکہ آپ ؑ کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا۔ پھر اُن کے جسم پر پھوڑے نکلے جن میں کیڑے پیدا ہو گئے۔ یوں سارا جسم کیڑوں سے بھر گیا۔ اس قدر مصیبت اور بیماری کی حالت میں بھی آپ ؑ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ ؑ کی بیوی نے کچھ ایسے کلمات کہہ دیئے جو صبر وشکر کے مناسب نہ تھے تو آپ ؑ نے قسم کھالی کہ اگر میں تندرست ہوگیا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔بیماری کی وجہ سے سوائے دو آدمیوں کے باقی تمام رشتہ داروں نے آپ ؑ سے کنارہ کشی اختیار کی اور چار بیویوں میں صرف ایک نیک بخت بیوی جس کا نام بی بی رحیمہ تھا وہ ہر وقت آپ ؑ کے پاس ر ہ کر خدمت میں مصروف ر ہتی تھی۔ وہ دن بھر محنت مشقت کرتی اور جو مزدوری ملتی اُس سے کھانے پینے کی اشیاء خرید کر لاتی۔ ۔ بعض روایات کے مطابق آپ ؑ کا دور ِ ابتلاء تیرہ برس رہا جب کے بعض کے نزدیک قریباً اٹھارہ برس اس امتحان میں مبتلا رہے۔ایک دن اُن دو آدمیوں سے ایک نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوا ہے جس کی وجہ سے اتنی بڑی آزمائش میں مبتلا ہوئے ہیں۔ یہ بات سُن کر آپ ؑ بے قرار ہوگئے اور تڑپ کر اﷲ تعالیٰ کو پکارا کہ اے اﷲ ! مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا قبول فرمائی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’اپنا پاؤں (زمین پر مار) یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے اور ہم نے ان کو اہل وعیال اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بخشے۔ یہ ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت تھی ‘‘۔ تندرست ہو جانے کے بعد آپ ؑ کو قسم سے بَری ہونے کی فکر لاحق ہوئی کہ ایسی وفا شعار بیوی کو سو کوڑے کیسے ماریں۔ چناں چہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قسم سے برات کی تدبیر سکھائی گئی۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ۔ ’’اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا ( جھاڑو) لو ، اور اس سے ماردو اور اپنی قسم مت توڑو ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا‘‘۔ آپ ؑ ایک سو چالیس سال کی عمر میں وفات پائی۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 302074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.