یعقوب ابن شعیب نے کہاکہ میں نے امام جعفر صادق علیہ
السلام سے عرض کیا کہ آپ اس جماعت کے سلسلے میں کیاکہتے ہیں جس کے رہنما اس
دنیا سے کوچ کرچکے ہیں،ان کا فریضہ ہے ؟
آپ نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہے !؟وما کان
المومنون․․․یحذرون․
صاحبان ایمان کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ سب کے سب جہاد کے نکل پڑیں تو ہر ایک
گروہ سے ایک جماعت اس کام کے لئے کیوں نہیں نکلتی کہ دین کا علم کا حاصل
کرے اور پھر جب اپنی قوم کی طرف لوٹ کر آئے تو اسے عذاب الٰہی سے ڈرائے کہ
شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں ۔(سورہ توبہ ۱۲۲)
راوی کا بیا ن ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر فدا ہوجاؤں ! ان لوگوں کا
کیا مسئلہ ہے جو انتظار کررہے ہیں کہ عالم علم حاصل کرکے واپس آجائے ؟
آپ نے فرمایا: اﷲ تم پررحمت نازل فرمائے !کیا تم نہیں جانتے کہ جناب عیسیٰ
اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے درمیان دو سو پچاس سال کا فاصلہ تھا ؟پس کچھ لوگ
جناب عیسیٰ کے دین پر قائم رہتے ہوئے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کا انتظار
کیااور وہ اسی حالت میں موت کی آغوش میں جاسوئے ۔اﷲ انہیں دہرا اجر دے گا
۔(بحارالانوار ج ۲۷ص۲۹۸ح۱۰)
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :اور ․․․رسول خدا ﷺ کے بعد گیارہ اماموں کو
قتل کیا جائے گا ۔بعض کو شمشیر کے ذریعہ مثلاامیرالمومنین علیہ السلام اور
امام حسین علیہ السلام ہیں اور بقیہ ہستیوں کو زہر دغا کے ذریعہ(
شہیدکیاجائے گا) ۔تما م ائمہ اپنے زمانہ کے ظالم و جابر حکمراں کے ذریعہ
شہادت پر فائز ہوئے ۔یہ بات حقیقت پر مبنی ہے ۔یہ نہ تو غالیوں کے قو ل کے
مطابق ہے اور نہ ہی مفوضہ کے (اﷲ ان پر لعنت کرے!)۔وہ یہ کہتے ہیں کہ
درحقیقت ائمہ علیہم السلام قتل نہیں ہوئے بلکہ ان حضرات جیسے شخص کے ساتھ
ایسا ہوا ہے ۔ان لوگوں نے درو غ گوئی سے کام لیا ۔اﷲ ان پر لعنت کرے !
بے شک ! جناب عیسیٰ ابن مریم کے علاوہ انبیا ء میں سے کسی بھی نبی کے ساتھ
ایسا نہیں ہوا ہے کہ انہیں آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا ہو۔آپ کی روح زمین
اورآسمان کے مابین قبض کی گئی تھی ۔پھر آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا
اور آپ کی روح پلٹادی گئی جیسا کہ اﷲ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:’’یا
عیسیٰ انی متوفیک و رافعک الی‘‘اور جب خدانے فرمایا : اے عیسیٰ ! ہم دنیا
میں تمہارے قیام کی مدت کو پورا کرنے والے ہیں اورتمہیں اپنی طرف اٹھانے
والے ہیں۔
اور اﷲ نے جناب عیسیٰ کے روز قیامت کے بیان کو اس طرح نقل کیا ہے ۔’’و کنت
علیھم ․․․شھید‘‘
اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ و نگراں رہا پھر جب تونے مجھے
اٹھا لیا توتو ان کا نگہبان ہے اورتوہر شے کا نگراں ہے ۔جو بھی پیغمبر
،رسول ،انبیا ء ،جناب آدم کے بعد آئے ہیں وہ سب کے سب ماں اور باپ کے ذریعہ
پیدا ہوئے لیکن ان تمام انبیاء کرام کے درمیان اﷲ نے جناب عیسیٰ کو بغیر
باپ کا پیدا کیا ۔اس سے اﷲ کا صرف یہ مقصد تھا کہ وہ اپنی نشانیاں ظاہر و
عیاں کر دے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ وہ ہر شے پر قادر ہے ۔(بحارا لانوار ج
۲۵ص۱۱۷)
یاسر الخادم نے کہا کہ میں نے امام رضا علیہ السلام کو یہ فرماتے سنا ہے کہ
انسان کے لئے تین مقامات سب سے زیادہ وحشت ناک ہوتے ہیں:ایک وہ دن جس روز
وہ شکم مادر سے باہر آتاہے اوردنیا کو دیکھتاہے ۔دوسرے وہ دن جس روز اس کی
موت ہوتی ہے ۔عالم آخرت اور وہاں کے لوگوں کو دیکھتاہے ۔تیسرے وہ دن جس
روزاسے قبر سے اٹھایا جائے گا ۔وہ ایسے احکام کا مشاہدہ کرے گا جن کو دنیا
میں نہیں دیکھا تھا۔اﷲ نے جناب یحییٰ کو ان تین مقامات سے محفوظ اور خوف سے
امان میں رکھا ۔ارشادہوتاہے۔:’’وسلام علیہ․․․حیا ‘‘
ان پر سلامتی ہو جس دن وہ پیداہوئے اورجس دن انہیں موت آئی اور جس دن وہ
دوبارہ اٹھا ئے جائیں گے۔(سورہ مریم ۱۵)
جبکہ جناب عیسیٰ نے خودان تینوں مقامات پر اپنی سلامتی کااعلان کیا
اورفرمایا :’’والسلام علی ․․․حیا‘‘
اورسلام ہومجھ پر اس دن جس دن میں پیداہوا اورجس دن میں مروں گا اور جس دن
دوبارہ اٹھا یا جاؤں گا۔(سورہ مریم۳۳)
(بحارالانوارج ۱۴ص۲۴۶ح ۲۶)
حضرت عیسیٰ کا بچپن
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: جب جناب عیسیٰ ابن مریم کی ولادت
ہوئی اور آپ کی عمر ایک دن کی ہوئی تو آپ دو دن کے بچے کی طرح تھے ۔جب آپ
سات ما ہ کے ہوئے تو آپ کی والدہ نے آپ کا دست مبار ک پکڑا ،مدرسہ لے گئیں
اوراستاد کے پاس بٹھادیا ۔
استاد نے کہا:’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کہو ۔
آپ نے’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کہا۔
استاد نے کہا:ابجدکہو۔
آپ نے سراٹھا یا اور فرمایا:کیا آپ ابجد کے معنی جانتے ہیں۔
استاد نے مارنے کے لئے چھڑی اٹھائی۔
آپ نے فرمایا:اگر آپ جانتے ہیں تومجھے نہ ماریں اور اگرنہیں جانتے ہیں
تومجھ سے پوچھیں تاکہ میں آپ کو بتاؤں۔
اس نے کہا :بیان کرو۔
آپ نے فرمایا:الف کا مطلب آلاء اﷲ ،با سے بھجۃ اﷲ ،ج سے جمال اﷲ اور دسے
دین اﷲ ۔
’’ھوز ‘‘کا مطلب ھا سے ھول جہنم(خوف جہنم )،و او سے جنمی پر وائے ہو !اور ز
سے زفیر جھنم یعنی جہنم کی سسکیاں ۔
’’حی ‘‘کا مطلب طلب مغفرت کرنے والوں کے گنا ہ جھڑ گئے۔
’’کلمن ‘‘کا مطلب کلام اﷲ لا مبدل لکلماتہ(اﷲ کا ایسا کلام جس میں کبھی
تبدیلی نہ ہوگی )
’’سعفض ‘‘کا مطلب ایک صاع کے بدلے صاع یعنی جزاء کے بدلے جزاء ۔
’’قرشت ‘‘کامطلب قرشھم فحشرھم یعنی ایک روز لوگوں کو جمع کیاجائے اورانہیں
دوبار ہ اٹھا یا جائے گا ۔یہ سن کر استاد نے کہا:اے خاتون ! اپنے فرزند کو
لے جائیے ۔بے شک یہ تعلیم یافتہ ہے اور اسے تعلیم کوئی ضرورت نہیں
ہے۔(بحارالانوار ج ۱۴ ص۲۸۶ح۸)
نوٹ:اس مضمون میں درایت اورروایت کے صحیح السندہونے سے قطع نظر صرف حضرت
عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق روایات کو جمع کیا گیا۔(مترجم)
|