کمزوری انسان کو نسیان اور بھولنے کے مرض میں مبتلا کر
دیتی ہے۔
آج امت مسلمہ پر بھی کمزوری کا غلبہ ہے۔ اس لئے اسے نسیان کا مرض لاحق ہے۔
یہ بہت جلد بھول جاتی ہے اپنے دشمنوں کو‘ دشمنوں کی تباہ کاریوں کو‘ بربریت
اور دہشتگردی کو۔
امت مسلمہ بھول گئی بوسنیا‘ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘سومالیہ‘ شام‘ یمن
وغیرہ کو دشمنوں نے کس طرح اپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔
امت مسلمہ بھول گئی تورابورا میں ڈیئزی کٹر بم گرائے جانے کو‘ ادلب‘ حمص‘
حلب‘ رقہ وغیرہ میں دشمنوں کے شہری آبادیوں پر ہزاروں بم برسانے کو۔
امت مسلمہ بھول گئی گوانتاناما بے اور ابو غریب جیل میں مسلمان قیدیوں پر
انسانیت کو شرما دینے والی مظالم کو‘ اُن ویڈیوز کو جو جنسی درندہ صفت
دشمنوں نے بنا کر امت کے ہر فرد کو دکھایا تھا اور قیدیوں پر کتوں کے کتے
چھوڑے جانے کو۔
امت مسلمہ اب تو کل کی بات بھی بھولنے لگی ہے۔
یہ بھول گئی میانمار میں روہینگائی مسلمانوں کے قتل عام کو‘ بچوں کے زندہ
جلائے جانے کو‘ عورتوں کی ننگی لاشوں کو۔
اور یہ بھولنے لگی ہے بیت المقدس کو ناپاک یہودیوں کی دارالحکومت قرار دینے
کو اور اس کمزور امت کو بھول جانا ہی چاہئے‘ خوابِ خرگوش میں محو رہنا
چاہئے۔
لیکن سال میں ایک یا دو بار اس امت کی یادداشت واپس آجاتی ہے یوم القدس پر
سیاست کرنے کیلئے‘ یوم کشمیر پر سیاست کرنے کیلئے ‘ دوچار ریلیاں نکالنے
کیلئے‘ چند گرماگرم تقاریر کرنے کیلئے اور دشمن کو اپنی لفاظی سے للکار نے
کیلئے جو نہ اسوۂ رسول ﷺ ہے اور نہ ہی خلفائے راشدین کا طریقہ ہے اور نہ
ہی کبھی کسی مسلمان جرنیل سے اس لفاظی کی جنگ کا ثبوت ملتا ہے۔
دشمن کو لفاظی سے نہیں ایکشن سے مات کیا جاتا ہے فلمی ایکشن نہیں جنگی
ایکشن اور حکمتِ عملی سے لیکن اس کمزور امت میں اب اس کی طاقت کہاں‘ ایسی
صلاحیت کہاں‘ ایسے مرد مومن کہاں جو یہ فریضہ انجام دے؟
ٹکروں میں بٹی نفسانی خواہشوں کی دلدادہ دنیا میں مست موت سے ڈرنے والی
کمزور امت لفاظی کے سوا کر بھی کیا سکتی ہے۔
تو کرتے رہو سیاست‘ نکالتے رہو ریلیاں‘ للکارتے رہو دشمنوں کو اور لڑتے رہو
لفاظی کی جنگ یہاں تک کہ دشمن تمہارا نام مٹا دے‘ اللہ تمہیں نابود کر دے
اور تمہاری جگہ دوسروں کو دین کا وارث بنا کر ان سے اپنے دین کی سربلندی کا
کام لے۔ جس طرح ماضی میں تاتاریوں سے لیا تھا۔
اے نسیان زدہ امت ! شاید کہ تمہیں کچھ یاد ہو‘ ماضی میں جب تمہاری روش آج
جیسی ہی تھی تب اللہ نے تمہارے دشمن تاتاریوں سے تمہیں خوب تہس نہس کیا ‘
تمہارے خون سے دجلہ اور فرات کو رنگین کیا‘ تماری کھوپڑیوں کے مینار بنوائے
اور پھر ان ہی تاتاریوں سے اپنے دین کا کام لیا۔ اور ایسا کرنا اللہ کیلئے
کچھ مشکل نہیں ہے۔
بقولِ شاعر مشرقؒ
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
یہی اللہ تعالٰی کی سنت ہے۔ وہ اپنے نافرمانوں کو اسی طرح سزائیں دیتا ہے۔
وہ اپنی دین کی وراثت نافرمان قوم سے چھین کر دوسرے قوم کو دے دیتا ہے‘ جو
دینِ الہی کیلئے اپنا جان و مال قربان کرتی ہے اور دین کو سربلند کرتی ہے۔
اگر موجودہ امت محمدیہ نے اپنی منافقت کی روش نہیں بدلی تو اللہ کیلئے یہ
کوئی مشکل نہیں کہ اسے نیست و نابود کرکے اپنے دوسرے بندوں کو اس دین اسلام
کا وارث بنا دے اور ان سے دین کی سربلندی کا کام لے‘جیسا کہ قرآن کی متعدد
مقامات پر اللہ تعالٰی کی وعید ہے:
إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِآخَرِينَ ۚ وَكَانَ
اللَّـهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ قَدِيرًا ﴿١٣٣﴾ سورة النساء
’’اے لوگو! اگر وہ (اللہ ) چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور (تمہاری جگہ)
دوسروں کو لے آئے، اور اللہ اس پر بڑی قدرت والا ہے‘‘
وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ
وَيَسْتَخْلِفْ مِن بَعْدِكُم مَّا يَشَاءُ كَمَا أَنشَأَكُم مِّن
ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ ﴿١٣٣﴾ سورة الأنعام
’’اور آپ کا رب بے نیاز ہے، (بڑی) رحمت والا ہے، اگر چاہے تو تمہیں نابود
کر دے اور تمہارے بعد جسے چاہے (تمہارا) جانشین بنا دے جیسا کہ اس نے دوسرے
لوگوں کی اولاد سے تم کو پیدا فرمایا ہے‘‘
إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ ﴿١٩﴾ وَمَا ذَٰلِكَ
عَلَى اللَّـهِ بِعَزِيزٍ ﴿٢٠﴾ سورة ابراهيم
’’وہ (اللہ) چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے
آئے۔ ایسا کرنا اللہ پر کچھ دشوار نہیں ہے۔‘‘
فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ
﴿٤٠﴾ عَلَىٰ أَن نُّبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
﴿٤١﴾ سورة المعارج
’’پس نہیں، میں قسم کھاتاہوں ، مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ہم اس پر
قادر ہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور کوئی ہم سے بازی لے
جانے والا نہیں ہے۔‘‘
وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا
أَمْثَالَكُم ﴿٣٨﴾سورة محمد
’’اور اگر تم (حکمِ الٰہی سے) رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر
دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے‘‘
آج یہ امت انفرادی و اجتماعی طور پر حکم الٰہی سے روگردانی کر ہی رہی ہے
اور اس کی سزا بھی بھگت رہی ہے لیکن پھر بھی سبق لینے کو تیار نہیں ہے۔
اللہ نے اس موجودہ امت کو ہر طرح کی خزانوں سے نواز کر سو سال کا وقت دیا
کہ یہ دین اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کرے لیکن یہ کمزور امت آپس کی تفرقہ
بازی سے کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی اور دین کے غلبے کا کام کرنے سے قاصر
رہی۔ دین اسلام غالب رہنے کیلئے ہے‘ مغلوب رہنے کیلئے نہیں اور اللہ اس دین
کو ضرور غالب کرے گا۔
اللہ نے ایک بار ان سے دین کی وراثت چھین کر ان کے دشمن تاتاریوں کو دین کا
وارث بنایا تھا اور پھر ان ہی تاتاریوں سے اپنی دین کی سر بلندی کا کام لیا
تھا ۔
شاید تاریخ پھر کسی تاتاری کے انتظار میں ہے جو موجودہ امت مسلمہ کو سبق
سکھائے۔
پھر کوئی شیخ جمال الدین انہیں یہ سبق پڑھائے کہ’’ جس کے پاس سچا دین نہیں
وہ کتے سے بھی برُا ہے‘‘۔
اور کوئی شیخ رشید الدین دشمن کے ایوانوں میں دستک دے اور اسلام و مسلمانوں
کے دشمنوں کو حلقہ بگوشِ اسلام کرے۔
اور پھر وہ سب مسلمان ہو کر دین کی سربلندی کیلئے دشمنوں سے قتال کریں اور
اللہ سبحانہ و تعالٰی انہیں فتحیاب کرے۔
اور بیت المقدس فتح ہو ‘ کشمیر فتح ہو ‘ظلم و بربریت کا شکار روہینگا‘
بوسنیا‘ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ سومالیہ‘ شام‘ یمن وغیرہ کے مسلمانوں کی
دادرسی ہو‘ انسانیت کی فلاح ہو اور دین اسلام غالب ہو۔
اور آنے والی نسلیں ایک بار پھر یہ ترانہ گائے:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
۔۔۔ و اللہ تعالٰی اعلم۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : محمد اجمل خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|