طالبان نے اپنی حکومت بنانے کے عمل کے ساتھ ہی افغانستان میں نئے قوانین بنانے شروع کردیے ہیں اور جیسا کہ پہلے سے اندازہ لگایا جارہا تھا کہ خواتین کے لباس کے بارے میں بھی فیصلے کیے جائیں گے طالبان حکومت نے اس کے لئے کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کے لئے دستاویزی قانون جاری کردیا ہے۔ جس کی تفصیل نیچے بیان کی جارہی ہے۔
چہرہ ڈھانپیں
شٹل کاک برقعہ پہننا لاذم نہہں البتہ عبایا اور چہرے پر نقاب لازم ہے۔ جب چہرے پر نقاب لگایا جاتا ہے تو ازخود چہرہ ڈھک جاتا ہے اور صرف آنھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔
خواتین طالبات کے لئے خواتین اساتذہ
لڑکیوں اور خواتین کے پڑھنے لکھنے پر کوئی پابندی نہیں البتہ یونیورسٹیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ لڑکیوں کو پڑھانے کے لئے خواتین اساتذہ کا اہتمام کریں اور لڑکے لڑکیوں کی کلاسز بھی علیحدہ رکھیں اور اگر یہ ممکن نہیں تو کم سے کم لڑکے اور لڑکیوں کی سیٹس کے درمیان پردہ تو ضرور ہی لگائیں اور خواتین اساتذہ نہ ملیں تو ایسے بوڑھے مردوں کو استاد مقرر کیا جائے جن کے کردار کی اچھی شہرت ہو۔
لڑکیاں اپنا سبق پہلے ختم کریں
لڑکیاں اپنا سبق کلاس ختم ہونے سے پانچ منٹ پہلے ختم کریں اور بلڈنگ سے نکل جائیں یا پھر اس وقت تک ویٹنگ ایریا میں رہیں جب تک تمام مرد تعلیمی اداروں سے باہر نہ نکل جائیں تاکہ کسی بھی قسم کی بے پردگی کا خدشہ نہ رہے۔
یہ ایک مشکل پلان ہے۔۔۔
طالبان کے جاری کردہ قانون پر ایجوکیشن منسٹری کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگرچہ افغانستان جیسے غریب ملک کے تعلیمی اداروں میں اس طرح کا اہتمام کرنا مشکل پلان ہے لیکن لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینا اور ایک بہت اچا اور مثبت اقدام ہے“