جہاز میں بیٹھنے والے مسافر ہی نہیں، عملہ اور پائلٹ سمیت دیگر
افسران بھی یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ لوگ بخیریت فلائٹ چھوڑنے جائیں اور اپنے ملک ، اپنے گھر سلامتی سے واپس آ جائیں، لیکن بعض اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا اور یہ اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچ جاتے ہیں۔
ایسی ہی ایک بنگلہ دیشی پائلٹ کی کہانی ہے، جو فلائٹ نمبر BG-022 میں بنگلہ دیش سے مسقط جا رہا تھا، جہاز نے اڑان بھری، اچانک پائلٹ کی طبیعت خراب ہوئی اور موسم کی خرابی کے باعث بھارت میں طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کروائی گئی، جہاں تک پہنچنے میں ہی پائلٹ اپنا آدھا سانس لینا بند کر چکا تھا، اس کو سانس نہیں آ رہا تھا اور لینڈنگ کرتے وقت پائلٹ نوشاد اپنے حواس کھوبیٹھا اور بیہوش ہو گیا۔ جب اسے مقامی ہسپتال لے جایا گیا تو معلوم ہوا کہ ہوا کے زیادہ دباؤ اور بلندی پر زیادہ رہنے کی وجہ سے پھیھپڑوں میں اٹیک ہوگیا اور نوشاد کی حالت غیر یقینی ہوگئی، 2 گھنٹے میں وہ کومہ میں چلئ گئے.
ان کے گھر والوں کو سول ایوی ایشن کی جانب سے کال کردی گئی کہ نوشاد بھارت میں انتقال کرگئے، بنگلہ دیشی حکومت نے ان کی فیملی کی مدد کی اور فوری بھارت پہنچایا گیا، اسکی 2 بہنیں اور ایک ماں بھارت گئیں تو نوشاد کو اس تکلیف میں نہیں دیکھ سکیں۔ 2 روز قبل نوشاد کی لاش بنگلہ دیش پہنچا دی گئی اور ان کی آخری رسومات پورے قومی روایات کے مطابق ادا کی گئیں اور ان کے آبائی قبرستان میں تدفین کر دی گئی۔
ان کی بہن کہتی ہیں کہ: '' جہاز اُڑانے مسقط گیا تھا، مرنے کی خبر بھارت سے آئی، ایسا لگا جیسے دل بند ہوگیا، 17 سال سے وہ جہاز اڑا رہا تھا، کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کو پھیپھڑے کا کینسر ہے اور یوں اچانک ان کی موت سے ہم گھر والے ذہنی تکلیف میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ '