وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے سی۔این ۔این کو انٹرویو دیتے وقت انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ کا اتحادی بننے کی وجہ سے پاکستان نے بہت کچھ بھگتا ہے۔
اگر میں اس وقت وزیراعظم ہوتا تو کبھی بھی افضانستان پر حملے کی اجازت نہیں دیتا۔
کیونکہ میں دوسروں کی جنگ لڑ کر اپنے ملک کو تباہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی بنیاد ہی غلط تھی، ہم تو امریکہ کیلئے کرائے کے جنگجو ہی تھے صرف۔ساتھ ہی ساتھ افغانستان کے مسئلے پر بات کرتے وقت کہنا تھا کہ دنیا کو اس وقت افغانستان کی مدد کرنی چاہیے نا کہ انہیں کنٹرول کرنا چاہیے۔
اس وقت افغانستان میں افراتفری ہے بڑے انسانی بحران کا خدشہ بھی پیدا ہو سکتا ہے اور افغانستان کو دہشت گرد دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں ، اس وقت کوئی بھی پیشگوئی نہیں کر سکتے ۔ دنیا افغان طالبان کو انسانی حقوق کے معاملے پر مہلت دے، عالمی برادری انہیں تسلیم کرے۔ اگر طالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو ایک بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو سکتا ہے‘افغانستان غیر مستحکم ہونے کی صورت میں امکان ہے۔
اگرطالبان تمام دھڑوں کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں تو یہ ممکن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان خواتین طاقتور ہیں اور انہیں وقت دیا جائے، افغان خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ افغانستان کو باہر سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
انٹرویو میں ہی انہوں نے واضح کر دیا کہ امریکی صدر جوبائیدن کا انہیں فون آیا، اور میں جانتا ہوں وہ ایک مصروف آدمی ہیں، فون کال پر منحصر نہیں ہو سکتے وہ معمول کے تعلقاتا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان پر عدم اعتماد کے باعث امریکا زمینی حقائق سے قطعی لا علم ہے۔