ذرا سی غلطی انسان کی زندگی کو مشکل بنا دیتی ہے لیکن جن کے اندر ہمت اور جذبے کی صلاحیت زیادہ ہو وہ کسی صورت ہار نہیں مانتے۔ یہاں ہمارے پاس ایک بہترین مثال عمر کی شکل میں موجود ہے جا اپنے دونوں بازو سے محروم ہے مگر چہرے پر غم نہیں بلکہ مسکراہٹ ہمیشہ نظر آتی ہے۔
سال 2018 میں عمر کے ساتھ ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب کمبھے سے کرنٹ لگنے کے بعد وہ اپنے دونوں بازو کھو چکا تھا۔ عدالت کے حکم پر کے الیکٹرک نے عمر کے مصنوعی بازو لگوانے تھے لیکن وہ آج بھی اسی انتظار میں بیٹھا زندگی گزار رہا ہے۔
عمر کراچی کے علاقے گلشن معمار کا رہائشی ہے۔ عمر نے بتایا کہ وہ اپنے پیروں کی مدد سے موبائل میں گیم بھی کھیل لیتا ہے اور پورا موبائل بھی چلا لیتا ہے۔
عمر کی والدہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتی ہیں کہ عمر پہلے بے حد شرارت تھا لیکن اس واقعے کے بعد عمر بہت سنجیدہ اور خاموش رہنے لگا ہے۔ عمر کی والدہ نے کہا کہ حادثے نے میرے بیٹے کو کافی بدل دیا ہے۔ جب کرنٹ لگنے کا واقعہ پیش آیا تب عمر سات چار برس کا تھا۔
حادثہ کیسے پیش آیا؟
انہوں نے بتایا کہ چار سال پہلے جب عمر پر بجلی کا کھمبا گرا تو وہ گھر سے کچھ قدم کے فاصلے پر تھے۔ انہوں نے ایک ہاتھ سے بجلی کی تاریں پکڑیں جس سے انہیں کرنٹ لگا۔ اپنے دوسرے ہاتھ سے جب انہوں نے تاروں کو خود سے الگ کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی کرنٹ کی وجہ سے چپک گیا یوں دیکھتے ہی دیکھتے عمر کے دونوں ہاتھ سمیت پورے بازو ضائع ہوگئے۔ٓ
لبنی کے مطابق ایک معروف کمپنی کے مصنوعی ہاتھوں کی صورت میں انہیں امید کی ایک کرن نظر آئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مصنوعی بازو لگانا ممکن ہے جن کے استعمال سے عمر کو آسانی ہوگی اور وہ اپنے ذاتی، روز مرہ کے کام کر سکتا ہے۔
عمر کی والدہ لبنیٰ کے مطابق تب مجھے یاد ہے کہ یہ سننے کے بعد عمر کے چہرے پر تھوڑی مسکراہٹ آئی تھی اور انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا مما کیا واقعی میرے نئے ہاتھ لگ جائیں گے؟ میں نے کہا ہاں بیٹا لگ جائیں گے۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ میں شاید اپنے بیٹے کے نئے ہاتھ لگانے کا وعدہ پورا نہیں کر سکوں۔