بچوں کے جوان ہونے کے بعد ان کی شادی کرنے کا حکم ہمیں ہمارا مذہب بھی دیتا ہے۔ جب لڑکی بالغ ہو جائے تو اس کی شادی والدین پر بڑی ذمہ داری ہے اور اسی طرح لڑکے کے لیے حکم ہے۔ پہلے کے وقتوں میں بچوں کی جلدی شادی کی جاتی تھی اور گھر والوں کی مرضی سے کی جاتی تھی اس وقت غیرت کے نام پر یوں لڑکیوں کو مارنے کا رواج زیادہ نہ تھا شاید وہی وقت سب سے زیادہ اچھا تھا۔
آج کل شادی کے لئے بالغ ہونے کی شرط سے زیادہ لڑکے کی اچھی کمائی اور لڑکی کا خوبصورت ہونا ہے شاید معاشرے کا یہ بدلتا پہر کئی ایسی لڑکیوں کی شادی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے جو رنگت کے لحاظ سے کم ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کم عمر میں شادی نہ کرنا بھی اب ایک رواج چل پڑا ہے۔ جہاں اکثریت جلدی شادی کرنے کے حق میں نہیں ہے وہیں بہت سے لوگوں نے کم عمر میں شادی کرکے نئی مثالیں قائم کی ہیں جن میں یوٹیوبر اسد اور نمرہ آج بھی پہلے نمبر پر ہیں۔
کم عمر میں شادی کرنے سے یہاں یہ اشارہ نہیں دیا جا رہا کہ کسی بھی چھوٹے بچے یا بچی کی شاید کرادی جائے بلکہ بالغ ہونے کے بعد 18 سال جو قانونی حد مقرر کی گئی ہے اسی کے مطابق بات کی جا رہی ہے۔ یعنی 18 اور 19 سال کی عمر مین شادی کرنا ایک مثبت عمل قرار دیا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے کے اصولوں کے مطابق بھی ہے اور مذہبی اعتبار سے بھی مناسب ہے۔
حال ہی میں اداکارہ اریشہ رضی خان کے نکاح کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئیں ہیں جس پر مداح اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ نیک اور مثبت عمل ہے کیونکہ اریشہ اس وقت 19 سال کی ہیں اور اس عمر میں نکاح جیسے پاک بندھن میں خود کو باندھنا سب سے زیادہ بہتر اقدام ہے۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں اداکارہ ہونے کے باوجود شادی کرنا سب سے زیادہ اچھا عمل ہے ورنہ اداکارائیں اتنی جلدی شادی جیسے بندھن میں نہیں بندھتی ہیں۔
تو کوئی ان کے کپڑوں اور مہندی کی تعریفیں کر رہا ہے۔
بیٹیوں کی کم عمر میں شادی کرنا ان کی صحت کیلئے بھی موزوں ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی کیونکہ اگر ماں صحت مند ہوگی تو بچے صحت مند ہوں گے۔ اس عمر میں دماغی نشوونما اپنے عروج پر ہوتی ہے کسی بھی بات کا فیصلہ لینے میں جذباتیت حد سے زیادہ ہوتی ہے لیکن جو کچھ انسان عمر کے اس حصے میں سیکھ لیتا ہے وہ اس کی زندگی کی اساس بن جاتے ہیں۔