بلوچستان کے شہر تربت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے ٹھیکیدار نیاز کے مطابق ہلاک ہونے والے پانچ مزدوروں کا تعلق ملتان کے علاقے شجاع آباد سے ہے۔
بلوچستان کے دور دراز علاقے تربت میں کام کرنے والے مزدور شفیق اور سکندر نے مل کر سنیچر کے روز اپنے گاؤں شجاع آباد جانے کا پروگرام بنایا تھا جو صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کے قریب واقع ہے۔
’شفیق کی مزدوری کے پیسوں میں سے اس کو آٹھ ہزار روپیہ دیے گئے تھے اور بقایا 16 ہزار کا میں نے کہا تھا کہ میں اسے گاؤں میں پہنچا دوں گا۔ سکندر کے صرف 2500 روپے تھے۔ اس نے پروگرام کینسل کردیا کہ یہ پیسے تو ملتان پہچنے کا کرایہ بھی نہیں ہوگا۔‘
یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے ٹھیکدار نیاز کا۔ انھی مزدوروں میں شفیق اور نیاز بھی شامل تھے۔
ہلاک ہونے والے پانچ مزدوروں کا تعلق صوبہ پنجاب میں ملتان کے علاقے شجاع آباد سے ہے۔ اس میں ٹھیکدار نیاز کے دو سگے بھائی، ایک ماموں اور ایک ماموں زاد کے علاوہ ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔
جبکہ ضلع ناروال سے تعلق رکھنے والے نیاز کے قریبی دوست بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
تربت پولیس کے مطابق یہ واقعہ ٹارکٹ کلنگ ہے اور اس واقعہ کا مقدمہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت سی ٹی ڈی تھانہ مکران میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
دوسری جانب اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
جبکہ اتوار کو تربت میں ہلاک کیے جانے والے چھ مزدروں کی لاشیں حکومت بلوچستان کے ہیلی کاپٹر میں ملتان پہنچا دی گئیں ہیں۔ نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر علی ڈوملی نے کوئٹہ سے مزدوروں کی لاشوں کو ملتان کے لیے روانہ کیا جبکہ ڈپٹی کمشنر کیچ حسین بلوچ بھی مزدوروں کی میتیوں کے ہمراہ ملتان گئے ہیں۔
حکومت بلوچستان کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے مزدوروں کے ورثا اور زخمیوں کو حکومت بلوچستان کی جانب سے معاوضہ کی جلد ادائیگی یقینی بنائی جائے گی۔
فائل فوٹو’عمران کو کم عمر ہونے پر چھوڑ دیا‘
تربت میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چھ مزدوروں کے قتل کا مقدمہ ٹھیکدار نیاز کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
درج مقدمہ میں نیاز نے بیان دیا ہے کہ وہ گذشتہ دس برس سے تربت میں تعمیراتی کام کروا رہے ہیں۔ سنیچر کی شب انھیں تقریباً 1:30 بجےاطلاع ملی کے چند نامعلوم مسلح افراد نے تربت کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ان کے بھائی شہباز اور وسیم کو دیگر مزدوروں کو گولیاں مار کر قتل اور زخمی کر دیا ہے۔‘
درج مقدمہ میں ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اطلاع ملنے پر جب وہ جائے وقوع پر پہنچے تو ان کے بھائی اور دیگر مزدور فائرنگ سے ہلاک ہو چکے تھے جبکہ توحید اور غلام مصطفی زخمی تھے۔
درج مقدمے میں زخمی مزدور توحید، غلام مصطفی اورعمران نے بتایا کہ رات ایک بجے دو مسلح نقاب پوش دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور ان کو نیند سے اٹھا کرچھت سے نیچے لائے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر ان پر فائرنگ کی اور پھر موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے۔
درج مقدمہ میں ٹھیکدار نیاز کے بیان کے مطابق ان کے بھائی شہباز اوروسیم سمیت دیگر مزدور رضوان، سکندر، نعیم اورشفیق فائرنگ سےموقع پر ہی دم توڑ گئے اور توحید اور مصفطی زخمی ہوئے جبکہ 13 سالہ عمران کو مسلح افراد نے کم عمری کی وجہ سے چھوڑ دیا تھا۔
نیاز کا کہنا ہے کہ میں وقوعہ سے قبل رات نو بجے تک ان سب کے پاس بیٹھا رہا تھا۔

’چھوٹے بھائی کی شادی کی تیاری کررہے تھے‘
نیاز کا کہنا تھا کہ ہم تو مزدوردار لوگ ہیں۔ ’میں چھوٹے موٹے ٹھیکے لیتا ہوں جس کے لیے مزدور اپنے گاؤں سے بلاتا ہوں جس میں زیادہ تر میرے بھائی اور قریبی عزیز ہوتے ہیں۔ اس کام کی انھیں 800سے لے کر 1300 روپے تک دیہاڑی ملتی ہے۔
نیاز کا کہنا تھا کہ میرے ایک چھوٹے بھائی وسیم کے علاوہ باقی سب شادی شدہ اور بال بچے دار تھے۔
’شبہاز میرے چھوٹے بھائی، سکندر میرے ماموں زاد بھائی اور میرے ناروال کے دوست نعیم کی شادی تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہی ہوئیں تھیں۔ انھوں نے میرے پاس ہی مزدوری کی تھی۔ ان تینوں کا ایک ایک بچہ ہے۔‘
نیاز نے بتایا کہ شادی کے بعد یہ لوگ کام پر واپس آئے تو اکثر دو، تین ماہ بعد ایک ساتھ ہی چھٹی مانگتے تھے جس سے کام کا حرج شروع ہوا۔
’میں نے ان تینوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر تو جاسکتے ہیں مگر وہ جس طرح ایک ساتھ پروگرام بناتے ہیں ایسے نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھوں نے گھر جانے میں زیادہ وقفہ لے لیا تھا۔‘
نیاز کا کہنا تھا کہ ’میرے دوست نعیم کے خیالات بہت اونچے تھے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ میں خود تو غربت کی وجہ سے پڑھ نہیں سکا مگر اپنے بچے کو پڑھاؤں گا۔‘
نیاز کے مطابق ماموں زاد بھائی سکندر اور میرا بھائی شہباز شادی کے بعد اپنا گھر بنا رہے تھے جس کے لیے وہ بہت محنت کرتے تھے۔
’شبہاز کا پروگرام تھا کہ وہ ایک ہفتے بعد گاؤں واپس جائے گا اور گھر کی تعمیر میں بنیادوں کا کام مکمل ہونے کے بعد اب دیواریں کھڑی کرے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس بھائی شہباز کی مزدوری کے 10 ہزار روپیہ بنتے تھے۔ وہ میں نے ان کو دے دیے تھے۔ مگر ہوا یہ کہ میرا بجلی کا بل بہت زیادہ تھا اور میرے پاس پیسے نہیں تھے جس پرشبہاز نے مجھے وہ 10 ہزار روپے واپس کر دیے کہ ابھی میں بل وغیرہ ادا کر لوں اور وہ گاؤں کچھ عرصے بعد چلاجائے گا۔‘
نیاز کا کہنا تھا ’ہم نے وسیم کی کچھ عرصہ پہلے منگنی کروائی تھی۔ اب خیال تھا کہ عنقریب اس کی شادی کروا دیں گے۔شہباز نے یہ بھی کہا کہ اب وہ ایک ہی مرتبہ بھائی کی شادی پر ہی جائے گا تاکہ بار بار چھٹی نہ کرنی پڑے۔‘
’ماموں بیٹی کی شادی کے لیے پیسے اکھٹے کررہے تھے‘
نیاز کا کہنا تھا کہ ماموں زاد بھائی سکندر اس سے پہلے اپنی مزدوری کے پیسے گھر بھجوا چکا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ گاؤں کا چکر لگا کر آجاتا مگر اس کی مزدوری کے صرف 2500 روپیہ ہی بچتے تھے۔
نیاز کا کہنا ہے کہ ’اس نے مجھ سے کچھ پیسے ایڈوانس مانگے مگر ہمارے کام کی حالت اچھی نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے پیسے نہیں ملے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ کام کی صورتحال تمھاری سامنے ہے جس پر اس نے واپس جانے کا پروگرام کینسل کرتے ہوئے کہا کہ وہ کچھ دن بعد چلا جائے گا تاکہ اس کے کچھ اچھے پیسے بن سکیں۔‘
نیاز کا کہنا تھا کہ ماموں شفیق چھ بچوں کے والد تھے۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی کی منگنی ہوچکی تھی جب کہ اب شادی کے دن قریب تھے۔ یہ شادی دسمبر میں ہونا تھی۔
’ماموں کچھ سال پہلے میرے ساتھ کام کرتے تھے مگر اب انھوں نے کافی عرصے سے کام چھوڑ دیا تھا اور گاؤں ہی میں زمینداری کرتے تھے۔‘
نیاز کے مطابق ’یہ ان کی بڑی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ جب بیٹی کی شادی کا وقت قریب آیا تو انھوں نے چھ ماہ پہلے مجھے سے کہا کہ وہ دوبارہ مزدوریپر جانا چاہتے ہیں تاکہ بیٹی کی شادی کے اخراجات کے لیے پیسے اکھٹے ہو سکیں۔ ان کی واپسی کا پروگرام تو ستمبر میں تھا مگر اچانک ان کی اہلیہ کی طبعیت بہت خراب ہو گئی تھی۔‘
نیاز کا کہنا تھا کہ جس بنا پر میرے ماموں نے فیصلہ کیا کہ وہ فی الفور واپس جائیں گے۔ ماموں کو ہر صورت واپس جانا تھا مگر اب ان کی لاش واپس جا رہی ہے۔‘