برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے خلاف ملک کے متعدد شہروں اور قصبوں میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس نے سنیچر کو 80 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے خلاف ملک کے متعدد شہروں اور قصبوں میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں کے پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد پولیس نے سنیچر کو 80 سے زیادہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
ہل، لیورپول، برسٹل، مانچیسٹر، بلیک پول اور بیلفاسٹ میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران بوتلیں پھینکی گئیں، دُکانوں کو لوٹا گیا اور پولیس پر بھی حملے ہوئے۔
برطانوی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پولیس کو ’نفرت کے بیج بونے‘ کی کوشش کرنے والے ’انتہا پسندوں‘ کے خلاف کارروائی کے لیے ’بھرپور حمایت‘ فراہم کرے گی۔
واضح رہے کہ پیر کے روز ساؤتھ پورٹ کے ایک مقامی ڈانس سکول میں بچوں کی ڈانس پرفارمنس کے دوران چھری سے لیس ایک شخص نے اچانک نمودار ہو کر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئی تھیں۔
ہارٹ سپیس سینٹر میں تقریب کے دوران ہونے والے حملے میں آٹھ بچوں سمیت 10 دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔
دوسری جانب تین بچیوں کے قتل کے الزام میں گرفتار 17 سالہ ملزم پر قتل کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ ان پر قتل کی کوشش کے 10 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان پر تیز دھار آلہ رکھنے کا بھی الزام ہے۔
ملزم کی کم عمری کے باعث ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ملزم کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور اس دوران کچھ مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے لڑتے ہوئے بھی نظر آئے۔
پولیس کے مطابق بدامنی پھیلانے والے مظاہرین کا تعلق اسلام مخالف تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ (ای ڈی ایل) سے ہےلیورپول میں مظاہرین نے پولیس پر بوتلیں اور اینٹیں پھینکیں۔ احتجاج کے دوران ایک پولیس اہلکار کے سر پر کُرسی پھینک کر ماری گئی اور ایک اور اہلکار کو لات مار کر موٹرسائیکل سے گرایا گیا۔
لیورپول کے ہی لائم سٹریٹ سٹیشن پر سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انھوں نے لوگوں سے اتحاد بنائے رکھنے اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
ان کی جانب سے ’ہم پناہ گزینوں کو یہاں خوش آمدید کہیں گے‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔
ان تمام افراد نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک ہزار مظاہرین کی طرف مارچ کیا تھا۔
یہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اسلام مخالف اور پناہ گزینوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
اس موقع پر پولیس اہلکاروں کو دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑی اور پولیس کی اضافی نفری بھی منگوائی گئی۔
علاقے میں یہ ہنگامہ آرائی اتوار کی صبح تک جاری رہی اور اس دوران پولیس پر آتشی مادہ بھی پھینکا گیا۔
میریسائیڈ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے دوران متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی ناک کی ہڈی اور دوسرے کا جبڑا ٹوٹ گیا ہے۔
پولیس اہلکاروں نے اس دوران 23 افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔
اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ: ’میریسائیڈ کے علاقے میں تشدد، افراتفری اور تباہی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘
’جو لوگ اس طرح کا برتاؤ کر رہے ہیں وہ خود کو اور اس شہر کو شرمسار کر رہے ہیں۔‘

ساؤتھ پورٹ کی سینٹ لوکس روڈ میدان جنگ کیسے بنی؟
برطانیہ کے شہر ساؤتھ پورٹ میں تین بچیوں کے قتل کے بعد رواں ہفتے کے دوران ایک مسجد کے باہر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں کم از کم 50 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
مقامی پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا لیکن اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی تاہم سوشل میڈیا پر افواہوں میں اس واردات کو مذہبی رنگ دیا گیا۔
پولیس نے واضح کیا کہ حملے سے متعلق غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں تاہم یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں اور ملزم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس وضاحت کے باوجود منگل کے دن ساؤتھ پورٹ میں بڑی تعداد میں مظاہرین ایک مقامی مسجد کے قریب جمع ہوئے جہاں ہنگامہ آرائی کا آغاز مسجد پر اینٹیں، بوتلیں اور پتھر برسانے سے شروع ہوا۔
موقع پر موجود پولیس، جو ایک پرامن احتجاج کی اطلاع کی وجہ سے پہلے سے تعینات تھی، پر بھی مظاہرین نے مختلف اشیا پھینکیں اور پولیس کی ایک گاڑی کو نذرآتش کر دیا گیا۔
پولیس کے مطابق کم از کم آٹھ اہلکاروں کو شدید چوٹیں آئی ہیں جن میں سے چند کی ہڈیاں تک ٹوٹ گئیں۔ پولیس کے مطابق بد امنی پھیلانے والے مظاہرین کا تعلق انگلش ڈیفنس لیگ (ای ڈی ایل) سے ہے جو خود کو اسلام مخالف تنظیم کہتی ہے۔
مقامی میئر پیٹرک ہرلے نے اس واقعے کے بعد بی بی سی ریڈیو فور سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہنگامہ آرائی کے ذمہ دار افراد باہر سے آئے تھے جنھوں نے تین بچوں کی موت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔‘
واضح رہے کہ ڈانس کلب پر حملے کے الزام میں ایک 17سالہ لڑکے کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ایلکس گوس نے کہا تھا کہ ’پولیس کی زیرحراست نوجوان کے بارے میں بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور کچھ لوگ اس واقعے کو غلط رنگ دے کر سڑکوں اور گلیوں میں تشدد اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔‘
’ہم نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ شخص برطانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ ملزم کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے سے کسی کی مدد نہیں ہوگی۔‘
ساؤتھ پورٹ حملے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے حملے میں چھ سالہ بیبی کنگ، سات سالہ ایلسی ڈوٹ اور نو سالہ ایلس ڈاسلوا ہلاک ہو گئی تھیں۔
اس واقعے میں آٹھ بچے زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت نازک بتائی گئی جبکہ پولیس کے مطابق حملے میں دو بالغ افراد کو بھی شدید زخم آئے تھے۔
پولیس نے اس واقعے کی تفصیلات کے بارے میں بتایا ہے کہ ڈانس سکول میں بچوں کی تقریب جاری تھی جس کے دوران ایک شخص چھری کے ساتھ عمارت میں گھسا اور اندر موجود لوگوں پر حملہ کر دیا۔
ان کے مطابق بچوں کو بچانے کے لیے دو بالغ افراد نے ’بہادری‘ کا مظاہرہ کیا جنھیں شدید چوٹیں آئی ہیں۔
چھ سالہ بیبی کنگ اور سات سالہ ایلسی ڈوٹ سوموار کے دن ہی ہلاک ہو گئی تھیں جبکہ نو سالہ ایلس ڈاسلوا کی موت اگلے دن ہسپتال میں واقع ہوئی۔
یہ بھی پڑھیے
’وہ بچوں کو مار رہا ہے‘
سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کے عینی شاہد جویل وریٹ نے بتایا کہ وہ ڈانس سٹوڈیو کے قریب سے گزر رہے تھے جب انھوں نے ایک خاتون کو یہ چلاتے ہوئے سنا کہ وہ بچوں کو مار رہا ہے۔
ان کے مطابق انھوں نے ایک گاڑی میں ایک خاتون کو بھی دیکھا جن کے ساتھ خون میں لت پت چار سے پانچ بچے موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی فلم جیسا منظر تھا۔ میں بتا نہیں سکتا کہ یہ کتنا ہولناک تھا۔‘
انھوں نے زخمیوں کی مدد کے لیے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر عمارت کی جانب رخ کیا تو اسی وقت انھوں نے مبینہ حملہ آور کو بھی دیکھا جو عمارت کے اندر ہاتھ میں چھری لیے کھڑا ہوا تھا تاہم مبینہ حملہ آور دیکھتے ہی دیکھتے فرار ہو گیا۔
انھوں نے بتایا کہ حملہ آور کو بعد میں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
منگل کے دن ساؤتھ پورٹ میں بڑی تعداد میں مظاہرین ایک مقامی مسجد کے قریب جمع ہوئے جہاں ہنگامہ آرائی کا آغاز مسجد پر اینٹیں، بوتلیں اور پتھر برسانے سے شروع ہوابچوں کو قتل کرنے والا مبینہ حملہ آور کون ہے؟
پولیس نے واقعہ کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ انھوں نے ایک شخص کو حراست میں لیا اور ایک چھری بھی قبضے میں لی۔
پولیس نے بعد میں ایک بیان جاری کیا اور بتایا کہ ملزم ایک 17 سالہ نوجوان ہے جس کو ساؤتھ پورٹ کے شمال میں لنکاشائر کے ایک گاوں بینکس سے گرفتار کیا گیا۔
پولیس ملزم سے اس حملے کے بارے میں تفتیش کر رہی ہے۔ ایک عینی شاید نے بتایا ہے کہ اس نے ملزم کو ایک ٹیکسی سے اترتے ہوئے دیکھا تھا اور اس نے اپنے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا اور ٹیکسی کو پیسے دینے سے انکار کر دیا تھا۔
بی بی سی کی معلومات کے مطابق یہ نوجوان 2013 میں ساؤتھ پورٹ منتقل ہوا تھا اور اس کے والدین کا تعلق روانڈا سے ہے جو پہلے کارڈف میں رہتے تھے۔
ملزم کے اہلخانہ کی ایک سابقہ پڑوسی نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ ’وہ جوڑا کافی اچھا تھا، ماں گھر پر ہی رہتی تھی اور باپ بھی اچھا انسان تھا جو ہر روز کام پر جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک چھوٹی سی گاڑی تھی۔‘
دوسری جانب کاوئنٹر ٹیررازم پولیس نارتھ ویسٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد ملزم کا جو نام بتایا جا رہا ہے وہ غلط ہے اور تفتیش کے دوران بہتر ہو گا کہ لوگ قیاس آرائیاں نہ کریں۔‘