کشمیر میں ریلوے ٹریک کا نیا پل جو ایفل ٹاور سے بھی 35 میٹر اونچا ہے

دنیا کا سب سے اونچا ایک محراب والا ریلوے پل پہلی بار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو ملک کے دیگر حصوں سے ٹرین کے ذریعے جوڑنے کے لیے تیار ہے۔ جموں کے ضلع ریاسی میں دریائے چناب پر پل کو مکمل کرنے میں انڈین ریلوے کو 20 سال سے زیادہ کا وقت لگا۔


پل
 

دنیا کا سب سے اونچا ایک محراب والا ریلوے پل پہلی بار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو ملک کے دیگر حصوں سے ٹرین کے ذریعے جوڑنے کے لیے تیار ہے۔ جموں کے ضلع ریاسی میں دریائے چناب پر پل کو مکمل کرنے میں انڈین ریلوے کو 20 سال سے زیادہ کا وقت لگا۔

یہ ایفل ٹاور سے 35 میٹر لمبا ہے اور پل پر پہلی ٹرین جلد ہی بکل اور کوری کے علاقوں کے درمیان چلائی جائے گی۔

یہ پل 272 کلومیٹر طویل اس ریلوے لائن کا حصہ ہے جو ہر موسم میں چلتی رہے گی۔ یہ جموں سے گزرے گی اور بالآخر وادی کشمیر تک جائے گی تاہم وہاں تک اس کی تکمیل کے لیے ابھی تک کوئی مقررہ ٹائم لائن نہیں۔

فی الحال وادی کشمیر سے سڑک کا رابطہ اکثر سردیوں کے مہینوں میں منقطع ہو جاتا ہے کیونکہ شدید برفباری کے نتیجے میں جموں سے آنے والی شاہراہ پر رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ریلوے لائن سے انڈیا کو شورش زدہ سرحدی علاقے میں سٹریٹجک برتری حاصل ہو گی۔

کشمیر کا ہمالیائی علاقہ کئی دہائیوں سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک اہم حصہ رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک 1947 میں آزادی کے بعد سے اب تک اس پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔

دونوں کشمیر پر مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں لیکن دونوں کے پاس اس کے کچھ حصوں کا کنٹرول ہے۔ انڈیا کے زیر انتظام علاقے میں 1989 سے مسلح بغاوت نے ہزاروں افراد کی جان لے لی اور علاقے میں فوج کی بھاری نفری اب بھی موجود ہے۔

پل
Getty Images
دریائے چناب پر بنایا گیا یہ پل ایفل ٹاور سے 35 میٹر اونچا ہے

پل سے انڈیا کو پہنچنے والے سٹریٹجک فائدے

اس پل کی تعمیر کرنے والے انڈین ریلوے کے ٹھیکیدار ایفکون انفراسٹرکچر کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر گریدھر راج گوپالن کا کہنا ہے کہ ’یہ پل سال بھر فوجی اہلکاروں اور سازوسامان کو سرحدی علاقوں تک لے جانے کے قابل بنائے گا۔‘

سٹریٹجک امور کی ماہر شروتی پنڈلائی کہتی ہیں کہ اس سے انڈیا کو مغربی اور شمالی سرحدوں پر پاکستان اور چین کی جانب سے کسی بھی مہم جوئی سے نمٹنے کے سٹریٹجک مقصد سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے گی۔

زمینی سطح پر اس منصوبے کے بارے میں جذبات مختلف ہیں۔

کچھ مقامی لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس اقدام سے یقینی طور پر نقل و حمل کے روابط کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی جس سے انھیں فائدہ ہوگا لیکن انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ انڈین حکومت کے لیے وادی پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہو گا۔

یہ ریلوے لائن وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے 50 سے زیادہ دیگر شاہراؤں، ریلوے اور بجلی منصوبوں کے ساتھ ایک بڑے بنیادی ڈھانچے کی توسیع کا حصہ ہے، جس نے 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس متنازع اقدام کے ساتھ ہی کئی ماہ تک سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے خطے میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا تھا۔

اس کے بعد سے حکومت نے کئی انتظامی تبدیلیاں کی ہیں جن کو کشمیر کو باقی انڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ضم کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

شروتی پنڈلائی نے مزید کہا کہ اگرچہ خطے کے لیے انڈیا کے منصوبے فطری طور پر اس کے ’سٹریٹجک مقاصد‘ پر مبنی ہوں گے لیکن اس کی ’مقامی ضروریات اور سیاق و سباق‘ کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر
BBC
ایک رپورٹ کے مطابق ہر 10 میں سے سات کشمیریوں کو پھلوں کےخراب ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے

ریلوے پل کا منصوبہ کیا ہے؟

چناب پل کی تعمیر کی منظوری 2003 میں دی گئی تھی لیکن خطے کی خطرناک جغرافیائی صورتحال، حفاظتی خدشات اور عدالتی مقدمات کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور ڈیڈ لائن پوری نہ ہو سکی۔

منصوبے پر کام کرنے والے انجینئروں کو تعمیر کے ابتدائی مراحل کے دوران پیدل یا خچر کے ذریعے دور دراز مقام تک پہنچنا پڑتا تھا۔

ہمالیہ ایک پہاڑی سلسلہ ہے اور ان کی جیو ٹیکنیکل خصوصیات کو ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔

یہ پل ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں زلزلے آتے ہیں اور انڈین ریلوے کو وسیع پیمانے پر تحقیقی مطالعہ کرنا پڑا، اس کی شکل اور محرابوں کو تبدیل کرنا پڑا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پل 266 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی ہوا کی رفتار کو برداشت کر سکے۔

راج گوپالن نے بتایا کہ ’مقام اور تنگ سڑکوں کی وجہ سے لاجسٹکس ایک اور بڑا چیلنج تھا۔ ‘

انجینیئرنگ کی پیچیدگیوں کے علاوہ، ریلوے کو دھماکوں سے محفوظ رہنے والا ایک ڈھانچہ ڈیزائن کرنا پڑا۔

ایفکونز کا دعویٰ ہے کہ یہ پل 40 کلو گرام تک ٹی این ٹی کے زوردار دھماکے کو برداشت کر سکتا ہے اور بھلے ہی نقصان ہو یا کوئی ستون ٹوٹ جائے، ٹرینیں آہستہ رفتار سے چلتی رہیں گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں ہر موسم میں رابطے کو ممکن بنانے سے خطے کی معیشت کو فروغ مل سکتا ہے۔

سردیوں کے دوران خراب رابطہ وادی کے زرعی کاروباروں کے لیے ایک بڑا دھچکہ رہا ہے۔

تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے مطابق ہر 10 میں سے سات کشمیریوں کو پھلوں کے خراب ہونے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں کشمیر کے سب سے بڑے کولڈ سٹوریج تنصیبات میں سے ایک کے مالک عبیر شاہ نے کہا کہ ریل لنک کا اثر ’بہت زیادہ‘ ہو سکتا ہے۔

فی الحال ان کے کارخانے میں ذخیرہ کیے گئے زیادہ تر آلو بخارے اور سیب ہریانہ، پنجاب اور دہلی جیسی شمالی ریاستوں کے بازاروں میں جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ نئی ریلوے لائن کسانوں کو جنوبی انڈیا تک رسائی فراہم کرے گی جس سے بالآخر ان کی آمدنی بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔

پھر بھی قریب اور بہتر رابطے کے بغیر وہ ریلوے کارگو کی طرفکاشکاروں کے منتقلہونے کے بارے میں پر امید نہیں کیونکہ ان سے ’قریب ترین سٹیشن 50 کلومیٹر دور ہے۔‘

’ہمیں پہلے سامان سٹیشن پر بھیجنا ہوگا پھر اسے اتارنا ہوگا اور اسے دوبارہ ٹرین پر لوڈ کرنا ہوگا۔ ایسی چیزیں جن کے خراب ہونے کا امکان ہو، آپ کو ان کے ساتھ ایسا کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔‘

کشمیر
Getty Images
جموں و کشمیر میں سخت سیکورٹی موجود ہے

سیاحت کے لیے امید لیکن سکیورٹی چیلنجز بھی

توقع ہے کہ اس منصوبے سے خطے کی سیاحت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔ خطے کے دور ہونے کے باوجود کشمیر کے شاندار سیاحتی مقامات کی آمدن میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جموں و کشمیر اور سرینگر کے درمیان براہ راست ٹرین نہ صرف سستی ہو گی بلکہ سفر کا وقت بھی آدھا ہو جائے گاجس سے سیاحت کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔

کئی چیلنجز بھی درپیش ہوں گے۔ کشمیر مسلسل تشدد کے واقعات کی زد میں ہے۔

عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں حالیہ اضافہ جو بظاہر وادی کشمیر سے نسبتاً پرسکون خطے جموں میں منتقل ہو گیا ہے اس تشویش کی ایک خاص وجہ ہے۔

جون میں عسکریت پسندوں نے ایک بس پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں نو ہندو یاتری ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

فوج اور شہریوں پر کئی دیگر حملے بھی ہو چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات یہاں ناقص امن کو ظاہر کرتے ہیں اور استحکام کے بغیر رابطے کے منصوبے خطے کی معیشت کی بحالی میں ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US