نواب شاہ کے قریب ایک مسافر ٹرین کو حادثے سے کیسے بچایا گیا؟

کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر جب یہ ٹرین نواب شاہ ریلوے سٹیشن سے قبل ایک پھاٹک کے قریب پہنچی تو کچھ فاصلے پر ریل کی پٹڑی پر ایک گیٹ کیپر ہاتھ میں سرخ جھنڈی اٹھائے دوڑ رہا تھا۔

شالیمار ایکسپریس، ٹرین، حادثہ، نواب شاہ

کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ مگر جب یہ ٹرین نواب شاہ ریلوے سٹیشن سے قبل ایک پھاٹک کے قریب پہنچی تو کچھ فاصلے پر ریل کی پٹڑی پر ایک گیٹ کیپر ہاتھ میں سرخ جھنڈی اٹھائے دوڑ رہا تھا۔

ٹرین کے ڈرائیور کو فوراً رُکنے اور سپیڈ کم کرنے کا اشارہ کرنے والا گیٹ کیپر جانتا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ریل گاڑی ایک خوفناک حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔

جمعے کو نواب شاہ سٹیشن کے قریب ایک ریلوے کراسنگ پر یہ منظر اس وقت رونما ہوا جب ریت لادنے والا ایک 10 وہیلر ٹرک ٹریک کے بیچ و بیچ الٹ گیا۔ وہ بھی اسی وقت جب سینکڑوں مسافر لیے شالیمار ایکسپریس کو وہاں سے گزرنا تھا۔

ریلوے حکام کے مطابق اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم اگر ٹرین کو بروقت روکا نہ جاتا تو ایک بڑی تعداد میں اموات بھی ہوسکتی تھیں۔

’ہٹو، نیچے اترو‘

مدد علی گذشتہ چھ سال سے نواب شاہ ریلوے سٹیشن کے قریب پھاٹک پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ جمعے کو انھیں معلوم تھا کہ یہ شالیمار ایکسپریس کے گزرنے کا وقت ہے۔ اسی لیے انھوں نے ایک پھاٹک کو عام ٹریفک کے لیے بند کیا تھا۔

وہ دوسرا پھاٹگ بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ’ایک 10 وہیلر ٹرک، جس پر اس وقت ریت لادی ہوئی تھی، رکنے کی بجائے آگے بڑھتا چلا گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ٹرک نے گیٹ کراس کیا تو پتا نہیں کیا ہوا کہ اچانک یہ پٹڑی کے پاس ہی روڈ سے تھوڑا دور الٹ گیا۔‘

مدد علی کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی نازک موقع تھا۔ انھیں خدشہ تھا کہ اگر ٹرین اپنی معمول کی رفتار سے آتی ہے تو ٹرک سے تصادم کے نتیجے میں بڑا نقصان ہوسکتا ہے۔

مدد علی کو ٹرین نظر آ رہی تھی اور ان کے پاس بہت کم وقت تھا۔ انھیں ڈرائیور کو اس خطرے سے آگاہ کرنا تھا۔

وہ سرخ جھنڈی اٹھا کر ’پانچ منٹ تک پٹڑی پر دوڑتے رہے۔‘

پاکستان ریلویز

’میرے اردگرد لوگ چیخ رہے تھے کہ میں پٹڑی سے ہٹ جاؤں۔ مگر مجھے تو اس ٹرین کو حادثے سے بچانے کی اپنی بھرپور کوشش کرنا تھی۔ میں اس وقت تک کھڑا رہا جب ٹرین بالکل میرے پاس نہیں پہنچ گئی تھی۔‘

جب ٹرین ان کے قریب پہنچی تو انھوں نے ایک طرف چھلانگ مار کر اپنی جان بچائی۔ ’لوگوں کے رویے سے پتا چلا کہ میں بال بال بچا ہوں۔ اب میں دیکھ سکتا تھا کہ ٹرین کی رفتار کم ہوچکی ہے۔‘

انھوں نے دیکھا کہ ٹرین کا اگلا انجن ٹرک سے ٹکرایا اور ٹرین رُک گئی۔ یہ لمحہ باعث اطمینان تھا کہ ’کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا۔ سب لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں۔‘

ٹرین کے ڈرائیور نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ خطرے سے آگاہ ہونے کے بعد انھوں نے ٹرک سے قریب 800 میٹر کے فاصلے پر ایمرجنسی بریک لگا دی تھی۔

موقع پر موجود گواہ مصطفیٰ کہتے ہیں کہ مدد علی جب ریل کی پیٹری پر سرخ جھنڈی لہرا رہے تھے تو ’ہم لوگ اس کو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ’ہٹو، اب نیچے اترو‘ کہ ٹرین قریب پہنچ چکی ہے۔

’مدد علی چاہتا تھا کہ ڈرائیور ہر صورت میں یہ دیکھ لے کہ آگے خطرہ ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ ڈرائیور نے خطرے کا اندازہ کر لیا اور ٹرین کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی۔‘

ٹرک ڈرائیور گرفتار

نوابشاہ پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او انسپکٹر مقصود احمد کہتے ہیں کہ ٹرین کی راہ میں آنے والے ٹرک کے ڈرائیور ریلوے حکام کی درخواست پر غفلت، ریلوے قوانین کی خلاف ورزی اور انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کے الزامات پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس مقدمے کے مطابق ٹرک ڈرائیور پر الزام ہے کہ انھوں نے اس وقت ٹرک گزارنے کی کوشش کی جب پھاٹک کا ایک گیٹ بند کیا جا رہا تھا اور دوسرا گیٹ بند کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔

مقصود احمد کا کہنا تھا کہ ’ڈرائیور نے پولیس کو دیے بیان میں اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے۔‘

ان کے مطابق ڈرائیور نے خطرے کے باوجود گزرنے کی کوشش کی مگر کچی جگہ پر ٹرک پٹڑی کے پاس الٹ گیا تھا۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر پھاٹک یا ریل کراسنگ غیر محفوظ سمجھی جاتی ہے۔

ملک میں کھلے پھاٹک یا پٹڑی پر سے ٹریفک گزرنے کے نامناسب اقدامات کی وجہ سے کئی حادثات ہو چکے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ملک بھر میں 2731 کھلے پھاٹک (ان مینڈ لیول کراسنگ) ہیں جن پر گذشتہ 13 برسوں میں 800 سے زیادہ حادثے ہو چکے ہیں۔

موسم سرما میں دھند اور سموگ کے باعث حادثے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts