پوتن سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ جنگ بندی کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے

image

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے بعد یوکرین میں جنگ بندی کے معاملے کو ایک طرف کرتے ہوئے امن معاہدے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صورت حال میں تبدیلی کا یہ اہم اعلان دونوں کی سنیچر کو ہونے والی ملاقات کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی۔

لاسکا میں ہونے والی اس اہم ملاقات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ دشمنی کا فوری خاتمہ کیا جائے اور ایسا نہ ہونے پر روس کو ’سنگین نتائج‘ کی دھمکی بھی دی تھی، جبکہ پیر کو یورپی رہنماؤں کے علاوہ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی بھی واشنگٹن کا دورہ کرر ہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ جنگ بندی کے نکتے سے ہٹنا صدر پوتن کے حق میں جاتا ہے کیونکہ وہ طویل عرصے سے ایک حتمی امن معاہدے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں، تاہم اس حکمت عملی پر یورپی رہنما تنقید کرتے ہوئے اسے ’صرف وقت کے حصول اور میدان جنگ میں پیش قدمی بڑھانے‘ کے ہتھکنڈے کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن واپسی پر یورپی رہنماؤں اور زیلنسکی سے بات کی اور اس کے بعد سوشل میڈیا ٹروتھ پر لکھا کہ ’سب نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کا بہترین راستہ براہ راست امن معاہدے کی طرف جانا ہے اور اس سے فوری جنگ ختم ہو جائے گی۔‘

ان کے مطابق ’جنگ بندی کے معاہدے اکثر اوقات برقرار نہیں رہتے۔‘

دوسری جانب یوکرینی صدر زیلنسکی اس نئی پیش رفت نے صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ ’اگر ماسکو حملے روکنے کے سادہ حکم پر عملدرآمد نہیں کر پا رہا تو روس کو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق رہنے کے نکتے تک لانے میں بہت کوششیں کرنا پڑ سکتی ہیں۔‘

ایک سرکاری عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ کال کے دوران ٹرمپ نے پوتن کی اس تجویز کی حمایت کی کہ روس کے قبضے میں جانے والے دو بڑے یوکرینی علاقوں کو کنٹرول روس کو دے دیا جائے اور اس کے بدلے میں دوسرے دو علاقوں میں محاذ بند کر جائے۔

رپورٹ میں سورسز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پوتن نے دو ٹوک طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ یوکرین ڈونباس کو چھوڑ دے۔ مشرقی حصے کے اس علاقے میں ڈونیٹسک اور لگانسک شامل ہیں۔

اس کے بدلے میں روسی فوج بحیرہ اسود کی بندرگاہ کے علاقوں کھیرسن اور زاپورریزہیا پر حملے روک دے گی، جہاں کے اہم شہر ابھی یوکرین کے کنٹرول میں ہیں۔

خیال رہے روس نے 22 فروری 2023 کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس پر وہ اپنی ملکیت کا دعویٰ رکھتا ہے، اس جنگ میں یورپی یونین اور امریکہ یوکرین کا ساتھ دے رہے ہیں اور روس پر پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں تاہم جنگ ابھی تک جاری ہے۔

کچھ ماہ قبل مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اور صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے روس پر دباؤ ڈالنا شروع کیا تھا۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US