ملک کے دو بڑے اداروں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ٹیکس محصولات اور ٹیکس ریفنڈ کے اعداد وشمار میں اربوں روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔
انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں کتنا ٹیکس وصول کیا گیا ہے؟ دونوں اداروں کے ڈیٹا میں یکسانیت نہ ہونے پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024 کے دوران اسٹیٹ بینک کی جانب سے ظاہر کردہ ٹیکس وصولیاں ایف بی آر کی جانب سے ظاہر کردہ وصولیوں سے 18 ارب روپے زائد ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں فرق نومبر 2024 کے ڈپارٹمنٹل آڈٹ کمیٹی میں بھی اٹھایا گیا اور 14 روز میں جواب جمع کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن ایف بی آر کی جانب سے رپورٹ مرتب ہونے تک جواب جمع نہیں کرایا گیا۔
صرف ٹیکس وصولیوں میں ہی نہیں ٹیکس ریفنڈ کے اعداد وشمار میں بھی دونوں اداروں کےریکارڈ میں بڑا فرق سامنے آیا ہے۔ ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے انکم ٹیکس، کسٹم اور سیلز ٹیکس ریفنڈ کے جو اعداد وشمار ظاہر کیے گئے ہیں اس میں 18 ارب 35 کروڑ روپے سے زائد کا فرق ہے۔ اسی طرح ایف بی آر اور اے جی پی آر کی ٹیکس وصولیوں اور ٹیکس ریفنڈ کے اعداد وشمار میں بھی کروڑوں روپے کا فرق آیا ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اسٹیٹ بینک اور وفاقی ادارہ شماریات کے تجارتی اعداد وشمار میں فرق بھی سامنے آتا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شفافیت کے لیے اداروں کے مابین اعداد وشمار میں مماثلت ضروری ہے۔