کھیلوں کے ایسے مقابلے جن میں ’بے ایمانی‘ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے

مئی 2026 میں ان کھیلوں کا بڑا میلہ لاس ویگاس میں سجے گا جہاں کوئی ڈرگ ٹیسٹنگ نہیں ہوگی اور کھلاڑیوں کو تمام طرح کی کارکردگی بہتر بنانے والی ادویات استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
Ben Proud of Team GB competes in the Men's 50m Freestyle semi-finals at the Singapore 2025 World Aquatics Championships.
Getty Images
برطانوی سوئمر بین پراوڈ بھی ان مقابلوں میں حصہ لیں گے

برسوں سے کارکردگی بہتر بنانے کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کسی گہرے بادل طرح کھلاڑیوں اور ان کی ساکھ کے اوپر منڈلا رہی ہیں۔

اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ممنوعہ ادیات استعمال کرنے کی پاداش میں کھیلوں کی دنیا کے بڑے نام نہ صرف اپنے جیتے ہوئے میڈلز کھوتے رہے ہیں بلکہ ان کی ساکھ بھی خراب ہوتی رہی ہے۔

لیکن سوچیں اگر کوئی ایسا مقابلہ ہو جہاں نہ صرف ممنوعہ ادویات کو نظرانداز کیا جاتا ہو بلکہ اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔

’اِنہینسڈ گیمز‘ میں خوش آمدید۔۔۔ ایسے کھیل جہاں کسی بھی مقابلے سے قبل کھلاڑیوں کا ڈرگ ٹیسٹ نہیں لیا جاتا۔

مئی 2026 میں ان کھیلوں کا بڑا میلہ لاس ویگاس میں سجے گا جہاں کوئی ڈرگ ٹیسٹنگ نہیں ہوگی اور کھلاڑیوں کو تمام طرح کی کارکردگی بہتر بنانے والی ادویات استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔

ان کھیلوں کا انعقاد آسٹریلین کاروباری شخصیت ایرون ڈیسوزا کا آئیڈیا ہے، جو سمجھتے ہیں کہ کھلاڑیوں کو اپنے جسموں کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

ایرون کے آئیڈیا کو ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر اور ارب پتی بزنس مین پیٹر تھیل کی حمایت بھی حاصل ہے۔

’اِنہینسڈ گیمز‘ کا تصور سب سے پہلے سنہ 2023 میں سامنے آیا تھا جب دنیا بھر کے کھلاڑیوں کو ورلڈ ریکارڈ توڑنے پر 10 لاکھ ڈالر تک کا انعام جیتنے کا موقع دیا گیا تھا۔

اس کھیلوں کے آرگنائزرز نے کہا تھا کہ یونانی تیراک کرسٹین کولومیو نے اپنے مقابلے میں 50 میٹر فری سٹائل سوئمنگ میں ایک نیا ریکارڈ بنا دیا تھا جو کہ سنہ 2009 کے بعد سے ٹوٹا نہیں تھا تاہم اس نئے ریکارڈ کو آج تک تسلیم نہیں کیا گیا۔

مئی 2026 کے ’اِنہینسڈ گیمز‘ کے ہونے یا نہ ہونے پر اب بھی لوگ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں لیکن دنیا بھر کے سوئمرز نے سوئمنگ کے مقابلوں کے لیے ابھی سے ہی اپنی رجسٹریشن کروانا شروع کر دی ہے۔

ان کھلاڑیوں میں برطانوی اولمپیئن تیراک بین پراؤڈ بھی شامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ’اِنہینسڈ گیمز‘ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

بین نے بی بی سی ٹوڈے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اس فیصلے کے پیچھے مالی عوامل کارفرما ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’13 برس تک میڈلز جیتنے کے بعد میں جتنی رقم کماؤں گا اُتنی رقم میں صرف ایک مقابلہ جیت کر کما سکتا ہوں۔‘

A tray of samples in the anti-doping laboratory which tested athlete’s samples at the London 2012 Games on 19 January 2012 in Harlow, UK.
Getty Images

یہ حیرانی کی بات بالکل نہیں کہ ’اِنہینسڈ گیمز‘ بہت سارے لوگوں میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکی ہیں۔

ورلڈ ایتھیلیٹکس کے صدر لارڈ کا کہنا ہے کہ ان مقابلوں میں حصہ لینا ’بیوقوفی‘ ہو گی اور اس میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

’اِنہینسڈ گیمز‘ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کھیلوں کے ذریعے کھلاڑیوں کی صحت کے ساتھ سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔ ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے ان مقابلوں کو ’خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا ہے۔

دیگر افراد کا کہنا ہے کہ ’اِنہینسڈ گیمز‘ کی ویب سائٹ پر ایسی مصنوعات فروخت کی جا رہی ہیں جس سے کھلاڑیوں کا ٹیسٹوسٹرون لیول بڑھ جاتا ہے۔ ان مصنوعات کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جیسے کہ مزاج میں جارحیت آجانا، موڈ خراب ہوجانا یا ڈپریشن کا بڑھ جانا۔

برطانوی سوئمر بین پڑاؤڈ کارکردگی کو بہتر بنانے والی ادویات کے ’خطرات‘ کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ان ادویات سے ساکھ کو نقصان ہو سکتا ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ مجھ پر ان ادویات کا استعمال فرض نہیں، انھیں استعمال کرنا یا نہ کرنا میرا اپنا فیصلہ ہو گا۔‘

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ایکواٹکس جی بی کا کہنا ہے کہ ’بین پراؤڈ کے اِنہینسڈ گیمز‘ میں حصہ لینے کے اعلان سے انھیں سخت مایوسی ہوئی۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ایکواٹکس جی بی اور اس کے پارٹنرز برطانوی سوئمر کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور سوئمنگ کے کھیل کو شفاف بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر
Getty Images
ایرون کے آئیڈیا کو ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر اور ارب پتی بزنس مین پیٹر تھیل کی حمایت بھی حاصل ہے

دوسری جانب ’اِنہینسڈ گیمز‘ کے آرگنائزرز کا کہنا ہے کہ مقابلوں میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑیوں کو ’طبّی معائنے سے گزرنا ہوگا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مقابلوں میں حصہ لینے کھلاڑیوں کو ’کھیلوں میں حصہ لینے اور جتینے پر فیس اور انعامی رقم دی جائے گی، جس میں اضافی بونس بھی شامل ہوں گے۔‘

’ہم کھلاڑیوں کو موزوں معاوضہ دینے اور ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے کے لیے پُرعزم ہیں کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں۔‘

برطانوی سوئمر بین پراوڈ نے بی بی سی ریڈیو فائیو کو بتایا کہ ’گذشتہ کئی برسوں سے اس حوالے سے ریٹائرمنٹ کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔‘

’حقیقت یہ ہے کہ اولپمکس پروگرام سے منسلک ہم کھلاڑیوں کو ریٹائرمنٹ کے وقت ناکافی رقم دی جاتی ہے اور میں ایسی چیز کی تلاش میں ہوں جو میری زندگی کو آسان بنا سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US