’پاکستانی سٹریٹیجی دبئی کی پچ کو راس نہ آئی‘

پہلے بولنگ کا فیصلہ سوریاکمار یادیو نے اسی سوچ کے تحت کیا تھا کہ دوسری اننگز میں ہدف کا تعاقب یہاں آسان رہے گا۔ پاکستان مگر اس پہلو کے مدِنظر اپنی سٹریٹیجی میں کوئی بدلاؤ نہ لا پایا۔ پڑھیے سمیع چوہدری کی تحریر
getty
Getty Images

خود سے بڑے پہلوان کو گرانا ہو تو زورِ بازو پہ تکیہ نہیں کیا جا سکتا۔ حریف اگر مضبوط ہو تو اسے اپ سیٹ کرنے کے لیے دماغ لڑانا پڑتا ہے اور کوئی ایسا داؤ رچانا پڑتا ہے جو نظروں سے اوجھل رہ کر اسے دم بخود کر جائے۔

عموماً ایک ٹی ٹونٹی اننگز کو تین حصوں میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہے۔ پاور پلے میں بلے باز اٹیک کرتے ہیں، مڈل اوورز میں بولنگ اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ سلاگ اوورز میں دونوں طرف گھمسان کا رن پڑتا ہے۔

مگر دبئی کی پچ پہ ٹی ٹونٹی اننگز کے تین نہیں، صرف دو حصے ہوتے ہیں۔

پہلے دس اوورز میں گیند نئی ہوتی ہے اور بلے بازوں کو قدم بڑھانا ہوتے ہیں جبکہ دوسرے دس اوورز میں ریتلی آؤٹ فیلڈ کی ستائی گیند بولنگ کو میچ میں واپس آنے کا موقع دیتی ہے۔

پاکستان کے تھنک ٹینک نے جو پلان لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھ کر کاغذ پہ بنایا، اس میں اگر اس پہلو کو ملحوظ رکھا بھی گیا تھا تو عملی طور پہ اس کا ثبوت دکھائی نہیں دیا۔

پہلے بولنگ کا فیصلہ سوریاکمار یادیو نے اسی سوچ کے تحت کیا تھا کہ دوسری اننگز میں ہدف کا تعاقب یہاں آسان رہے گا۔ پاکستان مگر اس پہلو کے مدِنظر اپنی سٹریٹیجی میں کوئی بدلاؤ نہ لا پایا۔

بلاشبہ ڈیٹا یہی بتاتا ہے کہ پاکستانی بیٹنگ نے اس پچ پہ جو ٹوٹل حاصل کیا، وہ یہاں کا اوسطوننگ ٹوٹل تھا۔

مگر ڈیٹا کی اپنی بہت معذوریاں ہیں۔ دبئی کا ڈیٹا جب اکٹھا کیا جاتا ہے تو لامحالہ اس میں اکثر معرکے افغانستان، پاکستان، عرب امارات، سری لنکا یا بنگلہ دیش کے ہوتے ہیں اور یوں ڈیٹا شاید خود بھی کبھی نہیں جان پاتا کہ اگر سامنے انڈین بیٹنگ لائن آ جائے تو کیا پھر بھی 171 ایک فاتحانہ مجموعہ ہی کہلائے گا؟

پاکستان انڈیا میچ
Getty Images

پاکستانی تھنک ٹینک یہ گتھی بھی نجانے کیوں نہ سلجھا پایا کہ اٹیک کرنے کے لیے اسے سست آؤٹ فیلڈ پہ گیند کے گِھسنے کا انتظار کرنا ہے یا پہلے ہی اپنی خاکستر میں موجود سبھی چنگاریاں آزما ڈالنی ہیں۔

جو غلطی انڈین بولنگ اٹیک نے کی، وہی غلطی پاکستان نے بھی دہرائی کہ جہاں پہلے دس اوورز میں صرف رنز کے بہاؤ پہ گرفت رکھ کر آخری دس اوورز میں یلغار کرنا تھی، وہاں دونوں جانب پاور پلے میں جارحیت کا مظاہرہ کیا گیا۔

پاکستان بہرحال انڈین بولنگ کی جارحیت سے فائدہ اٹھانے کو مائل بھی تھا اور وہ عزم دکھائی بھی دیا مگر پھر اچانک ٹی وی امپائر کو وہ کیچ نظر آ گیا جو کروڑوں شائقین ہی نہیں، ہاردک پانڈیا سمیت کم از کم آٹھ انڈین کھلاڑی بھی دیکھنے سے قاصر رہے تھے۔

جو کام فخر زمان کرنا چاہ رہے تھے، وہ پاکستان کے حتمی مجموعے کو دس پندرہ رنز بڑھا سکتا تھا مگر جب پی سی بی اور آئی سی سی کے درمیاں تُند ہوائیں چل رہی ہوں تو ٹی وی امپائرز کی جانب سے بھی پاکستان کو کیا ہی کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آئے گا۔

ابھیشک شرما نے پاور پلے میں ہی میچ یکطرفہ کر دیا۔ پاکستان کے پاس ان کا کوئی تدارک نہیں تھا۔ پاکستانی بولنگ صرف ڈسپلن ہی کے ذریعے ان کا رستہ روک سکتی تھی۔ مگر پہلے نو اوورز میں پاکستانی بولر ڈسپلن سے گریزاں رہے۔

بلاشبہ ابھیشک شرما ہنرمند بلے باز ہیں اور وہ پہلی ہی گیند سے اٹیک کرتے ہیں۔ لیکن جواب میں پاکستان بھی ان کا مقابلہ اگر اٹیک کی بجائے محض ڈیفنس سے کرنے کی کوشش کرتا تو ان کے بازو اتنی بھی آسانی سے نہ کھلتے۔

پاکستان انڈیا میچ
Getty Images

بھلے یہ مجموعہ انڈین بیٹنگ لائن کے اعتبار سے کم تھا مگر پاکستان سٹریٹیجی کے میدان میں اسے یوں مات کر سکتا تھا کہ پہلے دس اوورز میں وکٹوں کے حصول کی بجائے دھیان صرف بنیادی کنٹرول رکھنے پہ دیا جاتا۔

جہاں وکٹوں کا حصول مقصود ہو، وہاں بولرز کو سٹمپس کے اردگرد بھٹکنے کی پوری آزادی ہوتی ہے کہ آخر یونہی تو بیٹنگ پچز پہ مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر سامنا شبھمن گِل اور ابھیشک شرما جیسی صلاحیت سے ہو تو جذبات کو تھام کر ٹھنڈے دماغ سے ازسرِنو سوچنا ضروری ہے۔

کسی بھی کلاسک کوچنگ مینوئل میں جو جو ممکنہ بیٹنگ شاٹ درج ہیں، وہ سبھی شبھمن گل کی جیب میں ہیں۔ ایسے میں نئی گیند سے سوئنگ کھوجتے ہوئے بولرز کو دھیان رکھنا چاہیے کہ گیند کی چمک کم ہونے تک ایسے بلے باز سے لڑنا بے سُود ہے۔

اگر پاکستانی بولنگ آخری دس اوورز کے لئے آٹھ رنز کا بھی مطلوبہ رن ریٹ بچا جاتی تو بہت امکان تھا کہ پندرہویں اوور کے بعد سے ریورس سوئنگ پکڑتی گیند پہ پاکستانی سیمرز کوئی یلغار ڈھا جاتے۔ مگر پاکستان نے اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے سبھی تیر آزما ڈالے۔

بہرحال پچھلے میچ سے موازنہ کیا جائے تو یہاں پاکستان بہت بہتر ٹیم نظر آئی اور مقابلے کا معیار بھی قدرے بہتر رہا۔ لیکن کھوئے ہوئے شائقین واپس پانے کے لیے اس ٹیم کو ابھی اپنا کھیل اور بلند کرنا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US