کچھ چہرے وقت سے پہلے ہی اپنی کہانی سنانے لگتے ہیں۔ آنکھوں میں چھپی سنجیدگی، مسکراہٹ میں پوشیدہ اعتماد، اور انداز میں وہ چمک جو قسمت کے بڑے فیصلوں کی خبر دیتی ہے۔ یہ کہانی بھی ایک ایسے ہی بچے کی ہے جس کی آنکھوں میں بچپن سے ہی ایک خواب پل رہا تھا. کرکٹ کے میدانوں پر چھا جانے کا۔ مگر شاید اُس وقت کسی نے سوچا بھی نہ ہو کہ یہ شرمیلا سا لڑکا آگے چل کر “سوئنگ کا سلطان” کہلائے گا۔
یہ بچہ لاہور کی گلیوں میں گیند اور بیٹ کے ساتھ بڑا ہوا۔ اسکول کے دنوں میں وہ اکثر اپنے ہم عمر دوستوں سے زیادہ دیر تک پریکٹس کرتا۔ کرکٹ سے عشق ایسا تھا کہ کتابوں سے زیادہ اُس کی توجہ گیند کی رفتار اور لائن پر ہوتی۔ اُس کے پاس کوئی کوچ نہیں تھا، مگر قدرت نے اُسے ایک ایسا ہنر دیا تھا جو کسی تربیت سے نہیں سکھایا جا سکتا. گیند کو دونوں طرف سوئنگ کرنے کا جادو۔
ایک دن قسمت نے اُس پر مسکرا کر دروازہ کھولا۔ لاہور کے ایک میدان میں ہونے والے مقامی میچ میں اُس کی تیز گیند بازی نے ایک مشہور کرکٹر کی نظر اپنی طرف کھینچ لی۔ بس وہ دن تھا جب کرکٹ کے ایک نئے ستارے کا سفر شروع ہوا، اور دنیا نے چند ہی سالوں میں اُس کا نام یاد کر لیا۔
جی ہاں، یہ کوئی اور نہیں بلکہ وسیم اکرم ہیں. پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین فاسٹ بولر، جنہیں دنیا آج بھی “The Sultan of Swing” کے نام سے یاد کرتی ہے۔
وسیم اکرم 3 جون 1966 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، مگر اُن کی خواہشیں ہمیشہ بڑی تھیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم اسلامیہ کالج لاہور سے حاصل کی، لیکن کرکٹ اُن کی اصل پہچان بن گئی۔ 1984 میں صرف 18 سال کی عمر میں جب انھیں نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے لیے موقع ملا، تو وہ کسی خواب سے کم لمحہ نہیں تھا۔
ان کی تیز رفتار گیندوں میں وہ “کِک” اور سوئنگ تھی جو بیٹسمینوں کو بے بس کر دیتی۔ چند سالوں میں وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے خطرناک ترین بولرز میں شمار ہونے لگے۔ 1992 کے ورلڈ کپ میں اُن کی شاندار کارکردگی نے پاکستان کو تاریخ میں پہلی بار عالمی چیمپئن بنایا۔ خاص طور پر فائنل میں انگلینڈ کے خلاف اُن کی “ریورس سوئنگ” گیندیں آج بھی کرکٹ کی تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھی جاتی ہیں۔
وسیم اکرم کی زندگی محض کرکٹ تک محدود نہیں رہی۔ ان کی پہلی اہلیہ ہما وسیم اُن کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھیں، مگر بدقسمتی سے وہ 2009 میں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وسیم اکرم نے بعد ازاں 2013 میں آسٹریلین شہری شنیرا سے شادی کی، اور اب وہ دونوں اپنی بیٹی کے ساتھ کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔
انھوں نے ذیابطیس کے مریض ہونے کے باوجود اپنی زندگی کو مضبوطی سے سنبھالا اور اس مرض کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے بھی کام کیا۔ وسیم اکرم آج صرف ایک کرکٹر نہیں بلکہ ایک مثال ہیں کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو قسمت بھی ہار مان لیتی ہے۔
بچپن کی اُس تصویر میں چھپا معصوم چہرہ دراصل ایک لیجنڈ کے خوابوں کا آئینہ تھا. ایک ایسا نام جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں فاسٹ بولنگ کی تعریف ہی بدل دی۔ وسیم اکرم، وہ بچہ جس کے چہرے سے ذہانت جھلک رہی تھی، آخرکار ایک لیجنڈ بن گیا۔