جب سعودی عرب میں ایک بادشاہ سے اقتدار چھین کر شہزادے کے سپرد کیا گیا

نو نومبر 1953 کو جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو شہزادہ فیصل ان کے پاس تھے۔ جب ان کے سب سے بڑے بھائی سعود وہاں پہنچے تو فیصل نے والد کی ایک انگوٹھی اتار کر پیش کی اور انھیں بادشاہ قرار دے دیا۔ سوائے ایک کے، دیگر تمام شہزادوں نے تائید کی۔ وہی انگوٹھی واپس فیصل کو دیتے ہوئے نئے شاہ سعود نے انھیں اپنا ولی عہد نامزد کر دیا۔
شاہ سعود اور ان کے بھائی شہزادہ فیصل
AFP via Getty Images

نو نومبر 1953 کو جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز کی وفات ہوئی تو شہزادہ فیصل ان کے پاس تھے۔ جب ان کے سب سے بڑے بھائی سعود وہاں پہنچے تو فیصل نے والد کی ایک انگوٹھی اتار کر پیش کی اور انھیں بادشاہ قرار دے دیا۔ سوائے ایک کے، دیگر تمام شہزادوں نے تائید کی۔ وہی انگوٹھی واپس فیصل کو دیتے ہوئے نئے شاہ سعود نے انھیں اپنا ولی عہد نامزد کر دیا۔

یہ سب ویسا ہی تھا جیسا مشرقِ وسطیٰ کی اس سب سے بڑی مملکت کے لگ بھگ نصف صدی سے حکمران عبد العزیز نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں چاہا تھا۔

مارک ویسٹن نے اپنی کتاب ’پرافٹس اینڈ پرنسز: سعودی عرب، محمد ٹو دی پریزنٹ‘ میں لکھا ہے کہ بسترِ مرگ پر 75 سالہ شاہ نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ ان کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے سعود کی حکمرانی ہوگی اور ان کے بھائی، فیصل ان کے دستِ راست ہوں گے۔

’بہت بار شاہ اپنے بیٹوں سعود اور فیصل سے وعدہ لیتے کہ وہ مل کر کام کریں گے۔ بھاری سی سرگوشی میں وہ کہتےفیصل، سعود آپ کے بھائی ہیں۔ سعود، فیصل آپ کے بھائی ہیں۔‘

لیکن بظاہر اتفاق اور ہم آہنگی کے اس لمحے سے شروع ہونے والا عہد آگے چل کر سعودی تاریخ کے سب سے بڑے خاندانی تنازع میں بدلنے والا تھا۔

سعود 51 سال کے تھے جب انھوں نے اقتدار سنبھالا۔

ویسٹن کے مطابق فیصل کی نسبت لمبے قد اور مضبوط جسم کے مالک سعود زیادہ اپنے والد کی طرح دِکھتے۔

’دوستانہ اور سخی مزاج تھے، بدووں میں رہنا انھیں پسند تھا۔ قبائلی بھی ان سے محبت کرتے، خاص طور پر جب وہ انھیں سونے اور چاندی کے سکے دیتے۔ لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ سعود اپنے والد جتنے سمجھ دار نہیں۔‘

’دوسری طرف 23 سال تک وزیرِ خارجہ رہنے والے اپنے بیٹے فیصل سے عبدالعزیز اتنے متاثر تھے کہ ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ کاش میرے تین فیصل ہوتے!‘

ویسٹن لکھتے ہیں کہ 1950 کی دہائی کی ابتدا میں تیل سے آمدن میں اضافہ ہو گیا تھا۔ لیکن شاہی خرچ جو 1952 میں کم کر کے مملکت کے اخراجات کا 24 فیصد کر دیا گیا تھا 1956 تک بڑھ کر ان کا نصف ہو چکا تھا۔ عالمی منڈی میں گراوٹ کے باعث اگلے پانچ سال تیل کی آمدن میں کمی کے تھے لیکن شاہ نے خرچے کم نہ کیے۔ صحت پر پانچ اور تعلیم پر چھ فیصد بجٹ لگتا۔

سعودی عرب، بادشاہ، سعود
Getty Images

’سعود نے فیصل کو مجلسِ وزرا کہلاتی اپنی کابینہ میں وزیراعظم مقرر کر رکھا تھا تاکہ ریاض میں ان پر نظر رکھی جاسکے۔ لیکن حکومت سعود کے بیٹے اور دوست چلا رہے تھے جو فیصل کی شکایات کے باوجود کسی بجٹ کے تابع نہیں تھے اور اپنے حواریوں کو بڑے بڑے تعمیراتی ٹھیکے دے رہے تھے۔‘

سنہ 1957 کے اختتام تک حکومتی قرض ڈیڑھ سال کی تیل آمدن سے بڑھ چکا تھا۔ بینک اب قرض نہیں دے رہے تھے۔ تیل کمپنی آرامکو نے بھی تیل کی رائلٹی کے بدلے پیشگی رقم دینے سے انکار کر دیا۔ سعودی کرنسی ریال کی قیمت نصف رہ گئی۔ مہنگائی دوگنا ہوگئی۔

سعودی عرب کو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑا جس کے اصرار پر جنوری 1958 میں ملکی تاریخ کا پہلا تفصیلی بجٹ بنا اور شاہی خاندان کے اخراجات میں بہت کمی کی گئی۔ اس پر شہزادے بہت خفا ہوئے۔ انھیں علم تھا کہ ایسا سعود کی بدانتظامی سے ہوا۔ فیصل تو پچھلے سال جون سے ملک ہی میں نہیں تھے۔

فیصل نے امریکہ میں جولائی میں پِتّا نکلوایا اور اگلے ماہ تک آرام کیا۔ ستمبر میں امریکی صدر ڈوائٹ آئزن ہاور اور ان کے معاونین سے ملاقاتیں کیں۔ اکتوبر میں معدے کا ٹیومر نکلوایا۔ نومبر میں ملک واپس جا سکتے تھے لیکن نیو یارک ہی میں چند ہفتے اور رہے۔ اگلے سال جنوری میں مصر میں صدر جمال عبدالناصر سے چار بار ملاقاتیں کیں۔‘

ویسٹن کے مطابق فروری میں فیصل دارالمملکت ریاض لوٹے تو شہزادوں کے سعود کے خلاف ہونے کی وجوہات میں ایک اور وجہ کا اضافہ ہوچکا تھا۔

سعودی عرب کے مصر سے تعلقات انتہائی بگڑ چکے تھے۔

’مصر کے صدر جمال عبدالناصر نہر سوئز کو قومیا کر کے برطانیہ اور فرانس کے سامنے کھڑے ہونے اور تمام عربوں کو متحد کرنے کے خواب سے عربوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ سعود بھی پہلے انھیں پیسہ بھی بھیجتے اور مصری اساتذہ اور فوجی تربیت کاروں کو اپنی مملکت میں خوش آمدید کہتے رہے۔‘

لیکن پھر انھیں لگا کہ ناصر ان کی بادشاہت کے لیے خطرہ ہیں۔

ویسٹن لکھتے ہیں کہ ناصر ستمبر 1956 میں سعودی عرب گئے تو انھیں بڑے بڑے ہجوم ملے۔ ناصر چند سال پہلے اپنے بادشاہ فاروق کو تخت سے ہٹا چکے تھے۔ اور اب سینکڑوں مصری افسر سعودی فوج کی تربیت کر رہے تھے۔ سعودی عرب میں سنے جانے والے قاہرہ ریڈیو سے شاہی خاندان کی فضول خرچی اور عیاشی کا ٹھٹھا اڑایا جاتا اور کہا جاتا کہ سعودی بادشاہت ترقی میں رکاوٹ ہے۔

سعودی عرب، بادشاہ، فیصل
Getty Images

’لیکن ایک ماہ بعد مصر کی اسرائیل کے خلاف جنگ میں سعود نے مصری جہازوں کو سعودی رن ویز استعمال کرنے کی اجازت دی اور آرامکو کو اسرائیل کے حلیف ممالک برطانیہ اور فرانس کو تیل بیچنے سے منع کر دیا۔‘

دو مہینے بعد لڑائی رُکی تو مصر سے دوستی ختم کرتے ہوئے سعود نے امریکہ سے اپنے اتحاد کی تجدید کی۔

ویسٹن کے مطابق جنوری 1957 میں سعود پہلے عرب بادشاہ تھے جو امریکہ کے دورے پر گئے۔

’صدر آئزن ہاور نے ٹارمیک پر استقبال کیا۔ کسی بھی امریکی صدرکے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی غیر ملکی رہ نما کی ایسی تکریم کی گئی۔‘

’صدر کو سوویت یونین کی مصر کو اسلحے کی فراہمی پر تشویش تھی۔ سو انھوں نے سعودی عرب کو جہاز،ٹینک اور اسلحہ اور تربیت کار بھیجنے پر اتفاق کیا۔ جواب میں سعودی عرب نے دہران میں امریکی فوجی اڈے کی لیزمیں اگلے پانچ سال کے لیے توسیع کر دی۔‘

دو مہینے بعد پانچ فلسطینیوں کو شاہ کا محل دھماکے سے اڑانے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

ویسٹن لکھتے ہیں کہ تفتیش میں انھوں نے اقرار کیا کہ ایک مصری فوجی اتاشی ان کے رہنما ہیں۔ ناصر نے اپنے معاون انور سادات کو یہ یقین دلانے کے لیے سعودی عرب بھیجا کہ یہ منصوبہ ان کے علم میں نہیں تھا۔ لیکن سعود نے یقین نہ کیا اور سیکڑوں مصری اور فلسطینی افراد کو ملک سے نکال دیا اور مصر سے کہا کہ تیل کی آئندہ خریداری وہ امریکی ڈالر سے کرے گا، مصری پاونڈز سے نہیں۔

پھر سعود نے اپنا بھی ایک منصوبہ بنایا۔

ویسٹن کے مطابق اپنے ایک سسر کے ذریعے شام کے محکمہ جاسوسی کے سربراہ عبد الحمید سراج کو لگ بھگ دو ملین پاونڈ کے تین ذاتی چیک پیشگی کے طور پر بھیجے۔ کل بیس ملین پاونڈ میں سے باقی رقم انھیں تب ملنا تھی جب وہ دمشق میں اترنے پر صدر ناصر کو بم سے اڑا دیتے۔

’سراج نے سعود کو دھوکہ دیا اور پانچ مارچ 1958 کو پریس کانفرنس میں سازش عام کر دی۔ ریاض سے تردید نہ آئی۔‘

’سعود نے بعد میں ناصر کو خط لکھا کہ انھوں نے یہ رقم شامیوں کو صرف کمیونزم سے لڑنے کے لیے بھیجی تھی۔ لیکن ناصر اب کھلے عام بادشاہت کے خاتمے کی پکار کرنے لگے تھے اور شاہی خاندان کو خدشہ تھا کہ مصری رہنما کے پیروکار سعودی افسران کا کہا مان ہی نہ لیں۔ اور عراق میں ایسا ہو بھی چکا تھا۔‘

شاہی خاندان کے لیے یہ ناکام منصوبہ آخری تنکا تھا۔

ویسٹن نے لکھا ہے کہ فیصل فروری میں وطن لوٹے تو ایک کے بعد دوسرے بدو شیخوں سے ملے اور انھیں بتایا کہ کیسے ان کے بڑے بھائی اب حکمرانی کے قابل نہیں رہے۔

’سراج کی پریس کانفرنس کے دو دن بعد انھوں نے وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے عہدوں سے استعفی دے دیا۔ اس پر ان کے چچا شہزادہ عبداللہ نے تمام شہزادوں، شیخوں اور علما کو اپنے پاس مذاکرات کے لیے بلا لیا۔ سعود اپنے محل میں رہے اور فیصل صحرا میں۔ چار روز بعد ان سب کا اتفاق تھا کہ سعود کو جانا ہوگا۔‘

’بائیس مارچ کو شہزادوں کے ایک وفد نے سعود کو تحریری الٹی میٹم دیا کہ اگر وہ بادشاہ رہنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنے تمام اختیارات فیصل کو دینا ہوں گے۔‘

سعودی عرب، بادشاہ، سعود
Getty Images

’فیصل پھر سے وزیراعظم بنیں گے لیکن اب سعود کابینہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کر سکیں گے۔ سعود کے بیٹے وزیر دفاع اور نیشنل گارڈ کے کمانڈرکے طور پر کام کرتے رہیں گے مگر فیصل سعودی مسلح افواج کے کمانڈران چیف ہوں گے۔ سعود خود رسمی سربراہ ہوں گے مگر چار ملین ڈالر فی ہفتہ سے زائدا آمدن کے ساتھ سعود نے یہ تمام مطالبات خاموشی سے مان لیے۔‘

’اکتیس مارچ 1958 کو شاہ سعود نے ایک فرمان کے ذریعے فیصل کو ملکی، خارجہ اور مالی امور۔۔۔ کی تمام ذمہ داری سونپ دی۔‘

مشرق وسطیٰ کے خارجہ امورکے ماہر بروس رائیڈل نے جریدے ’سٹڈیز ان انٹیلی جنس‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ آلِ سعود نے پہلی اور آخری بار ایک بادشاہ سے اقتدار چھین کر دوسرے شہزادے کے سپرد کیا تھا۔

’شاہ سعود کو اقتدار سے الگ کر کے اختیارات ولی عہد فیصل کے حوالے کیا جانا امریکہ کے نزدیک اس کی بڑی ناکامی اور ناصر ازم کی جیت تھی۔ سعود کو پہلے ہی اپنی نااہلی اور بدعنوانی کے باعث غیر موزوں سمجھا جاتا تھا جبکہ فیصل کو مملکت کا نجات دہندہ مانا گیا۔‘

’واشنگٹن کو ناصر کے خلاف سازش کا علم تھا۔ بلکہ اس کی اطلاع خود سعود نے دی تھی۔‘

’مگر منصوبہ ادھورا نکلا، یا شاید فریب۔ مصر اور شام، جو اس وقت متحدہ عرب جمہوریہ بن چکے تھے، سازش سے واقف تھے۔ ناصر نے سعود کو عرب عوام کا دشمن اور مغرب کا آلہ کار قرار دیا۔‘

’امریکی انٹیلی جنس رپورٹوں کے مطابق فیصل سعودی آزادی برقرار رکھنا چاہتے تھے مگر ناصر سے محاذ آرائی سے گریز کرتے۔ وہ کمیونزم کے سخت مخالف اور امریکا کے لیے قابلِ اعتماد سمجھے گئے۔ اگر سعود برقرار رہتے تو شاید بادشاہت کا خاتمہ ہو جاتا۔‘

’فیصل کی متوازن قیادت نے مملکت کو سنبھالا اور بعد ازاں تیل کے عروج کے دور میں استحکام بخشا۔‘

ویسٹن کے مطابق ان کی پہلی ترجیح حکومتی ملازمینکو عید سے پہلے تنخواہیں دینا تھا مگر خزانہ دیکھا تو اس میں صرف 317 ریال تھے۔

’بہرحال قرض لے کرمعاملات چلائے۔سخت معاشی اقدامات کے نتیجے میں اگلے سال کے بجٹ تک مالیاتی توازن حاصل ہوچکا تھا۔ مہنگائی رک گئی تھی اورسونے کے سکوں کی بجائے کاغذ کی کرنسی متعارف ہوچکی تھی۔‘

نومبر1960 تک سعودرسمی رہ نما رہتے رہتے تھک چکے تھے۔

شاہ سعود اپنے خاندان کے ہمراہ ایک تقریب میں
Getty Images
شاہ سعود اپنے خاندان کے ہمراہ ایک تقریب میں

ویسٹن لکھتے ہیں کہ سعود نے فیصل سے کہا کہ وہ ان کی اجازت کے بغیرجج یا گورنر مقررنہ کریں۔ فیصل نے اس پر توجہ نہ دی۔ پھر سعود نے بجٹ پر دستخط سے انکار کردیا۔ اس شام فیصل نے سعود کو لکھا: میں کام جاری نہیں رکھ سکتا اس لیے آج رات سے اپنے تمام اختیارات کا استعمال روک دوں گا۔

’فیصل کا شاید یہ خیال تھا کہ سعودہار مان لیں گے۔ لیکن سعود نے ان کے خط کو استعفا جانا۔ شاہی خاندان جو فیصل کی بچت مہم سے تنگ تھا اس جوابی انقلاب پر چپ رہا۔ بہت سے بڑے بھائی فیصل کے حامی رہے تو سعود نے انھیں کابینہ سے باہر رکھا۔‘

’سنہ 1961 میں سعود جگرکے علاج کے لیے امریکا گئے تو فیصل کو اپنا نائب مقررکیا۔ فیصل نے بھی وعدہ کیا کہ وہ سعود کی واپسی تک کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔‘

’اگلے سال مارچ میں سعود کی واپسی ہوئی تو سینیئر شہزادوں نے فیصل کو دوسری بار بدلنے کی اجازت نہ دی۔ انھوں نے سختی سے سعودسے کہا کہ فیصل ہی ملک چلاتے رہیں گے۔‘

اقتدارسے پندرہ ماہ باہر رہنے کے بعد فیصل پھر سے حکم ران تھے۔

فیصل نے ایک بار کہا تھا، ’جب بھی میں ایک زخم پر مرہم رکھتا ہوں، دوسرا زخم کھل جاتا ہے۔‘

ویسٹن لکھتے ہیں کہ جب فیصل ملک چلا رہے تھے، تب بادشاہ سعود گیارہ ماہ یورپ میں مختلف کلینکس (لوزان اور ویانا) اور پیرس و نیس کے لگژری ہوٹلوں میں گزارتے رہے۔ وہ اکسٹھ برس کے تھے، مگر جگر کے مرض اور معدے کے السر کے باعث اسی برس کے بوڑھے جیسی چالچلتے۔ اس کے باوجود وہبڑا شاہانہ قافلہ لیے پھرتے تھے۔

سعود
Getty Images

’وہ بیل بوائز کو ہر بار 100 ڈالر ٹپ دیتے تھے (جو آج کے تقریباً 600 ڈالر کے برابر ہیں)، لبنانی ریستورانوں سے بھنے ہوئے بکرے منگواتے اور اپنے سوئٹس میں کھاتے تھے اور ہوٹل کے بل ہفتے کے 50,000 ڈالر (آج کے تقریباً 300,000 ڈالر) تک پہنچ جاتے تھے۔‘

’ستمبر 1963 میں سعود بالآخر ریاض واپس آئے اور ایک ہفتے کے اندر ہی اقتدار کھو دینے پر غصے سے بھر گئے۔ 1960 کی طرح، انھوں نے بجٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا، مگر اس بار فیصل نے خود دستخط کر دیے۔ جب فیصل اور سعود ایک کمرے میں ہوتے، تو فیصل اپنے بڑے بھائی کے ساتھ نہایت ادب سے پیش آتے۔ وہ سعود کے ہاتھ کو بوسہ دیتے، ان کے نیچے زمین پر بیٹھتے، ان کے جوتے پہننے میں مدد کرتے، اور کبھی آواز بلند نہ کرتے۔‘

’تاہم، نجی طور پر فیصل اپنے بھائی سے اتنی نفرت کرنے لگے تھے کہ انھوں نے ان کا نام لینا چھوڑ دیا تھا اور صرف 'وہشخص' کہا کرتے۔‘

’سعود نے 13 مارچ 1964 کو فیصل کو ایک خط میں مطالبہ کیا کہ چونکہ ان کی صحت بہتر ہو گئی ہے، اس لیےانھیں انتظامی اختیارات واپس کر دینے چاہییں اور ان کے دو بیٹوں کو کابینہ میں شامل کیا جانا چاہیے۔ سعود کے بیٹے قبیلوں میں حمایت حاصل کرنے کے لیے ریگستان کی طرف گئے، مگر قبائل خاموش رہے۔‘

’نیشنل گارڈ کے کمانڈر عبداللہ (جو 2005 میں بادشاہ بنے) سعود سے اتنے غصے میں تھے کہ وہ بادشاہ کو معزول کرنا چاہتے تھے۔ فیصل، جو شاذ و نادر ہی جلد بازی میں فیصلہ کرتے تھے، نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔‘

انتیس اکتوبر کو دو اجلاس ہوئے۔

عبدالعزیز
Getty Images

ویسٹن نے لکھا ہے کہ ایک جانب 65 علما ملے دوسری جانب شہزادوں کا ایک غیر رسمی گروہ ’اہل الحل والعقد‘ ملا جو سعودی عرب میں طاقتور ترین ادارہ تھا۔ تب اس گروہ میں عبدالعزیز کے تیس بیٹے، پندرہ پوتے، بہت سے بھائی اور پینتالیس بھتیجے تھے۔

’سہ پہر میں علما صحارا محل میں شہزادوں کے پاس آگئے۔ سب کا اتفاق تھا کہ فیصل نئے بادشاہ ہوں۔ سعود کی اقتدار سے علیحدگی اور فیصل کی بیعت کی دستاویز پر پینسٹھ شہزادوں اور بارہ علما نے دستخط کیے۔ فیصل صحرا میں تھے۔ جب یہ وفد انھیں یہ بتانے گیا کہ وہ نئے بادشاہ ہیں، مغرب کی اذان کی ابتدا تھی۔ بغیر کوئی لفظ کہے فیصل نماز پڑھنے چلے گئے۔ وہ واپس لوٹے تو وفد نے کہا 'آپ بادشاہ ہیں۔‘

’اسی شام وہی وفد سعود کے محل گیا کہ وہ تخت چھوڑ دیں لیکن تین روزتک سعود نے انکار کیا۔ دونومبر 1964 کو سعودی عرب نے ان کے بغیر ہی معاملات زندگی چلانا شروع کر دیے تھے۔‘

جیف ڈی کولگن نے اپنی کتاب ’پیٹروایگریشن‘ میں لکھا ہے کہ خاندان کے بڑوں کے اضافی دباؤ پر سعود نے ضد چھوڑ دی اور تخت سے علیحدہ ہوگئے۔ لیکن طاقت کی یہدرونِ خانہ کش مکش کہیں بھی انقلابی نہیں ہوئی۔

ویسٹن کے مطابق زندگی کے تمام شعبوں کے افرادنے فیصل کی بیعت کر لی۔ سعود کے باون بیٹوں کو ایک ماہ لگا، لیکن دسمبرمیں وہ بھی فیصل کے تابع تھے۔

’سعود نے جلا وطنی کا زیادہ عرصہ ایتھنز میں گزارا۔ اگلے ہی سال اپنی ایئرفورس بنائی، شاید بادشاہت دوبارہ پانے کے لیے۔ کبھی قاہرہ کے راستے اور کبھی یمن کے باغیوں کے ذریعے انقلاب لانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ سنہ 1969 میں بیماریوں کے سبب جان گئی۔ والد کے ساتھ والی قبر میں دفن ہوئے۔‘

فیصل بالآخر بادشاہ بنے۔ نئے سکول، نئی سڑکیں، ہسپتال، پاورپلانٹس تعمیرہوئے۔ تیل کی طاقت کا استعمال کیا۔ سنہ 1972 تک وہ مسلم دنیا اور تیل کی صنعت کے طاقت ورترین شخص تھے۔

فیصل بن عبدالعزیز السعود 1964 سے 1975 تک گیارہ برس سعودی عرب کے بادشاہ رہے۔ اس سے پہلے وہ اپنے والد کے وزیرِ خارجہ کے طور پر تئیس برس تک خدمات انجام دیتے رہے اور پانچ برس تک اپنے بھائی (شاہ سعود) کے اقتدار کے پسِ پردہ طاقت تھے۔ انھوں نے 1958 اور 1959 میں سعودی عرب کو معاشی بحران سے نکالا اور 1960 کی دہائی میں مملکت کی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا۔

سنہ 1973میں انھوں نے عرب تیل کے بائیکاٹ کی قیادت کی، جس سے تیل کی قیمتیں چار گنا بڑھ گئیں اور اگلی دہائی میں آدھے ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی آمدنی ہوئی۔ انھوں نے منظم طریقے سے کوشش کی کہ عرب دنیا میں سوشلسٹ نظریے کی جگہ اسلام کو غالب نظریہ بنایا جائے۔

پیٹرڈبلیو ولسن نے اپنیکتاب سعودی عریبیہ: دی کمنگ سٹارم میں لکھا ہے کہ اس واقعے نے آل سعود کو سبق دیا کہ عوامی سطح پر اختلاف ان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ اس کے بعد سے خاندان کے اندرونی جھگڑے کبھی اتنے شدید نہیں ہوئے جتنے 1958 سے 1964 کے درمیان تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US