کوئٹہ کی زمین دھنس رہی ہے اور یہ سالانہ 10 سے 16 سینٹی میٹر تک دھنس رہی ہے جو کوئٹہ کے زلزلے کے فالٹ لائن کی وجہ سے کسی بھی وقت ایک بڑے خطرے کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
بلوچستان کے شعبہ جیالوجی کے پروفیسر ریٹائرڈ دین محمد کاکڑ نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ کوئٹہ ویلی میں زیرِ زمین پانی کے بے تحاشا استعمال اور نکاسی کی وجہ سے زمین تیزی سے دھنس رہی ہے، جس کے باعث مستقبل میں بڑے پیمانے پر نقصانات کا خدشہ ہے۔
دین محمد کے مطابق، ایک تو ہم گلوبل پوزیشننگ سسٹم کے ذریعے اس کی نگرانی کررہے ہیں، جس سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ زیرِ زمین پانی کی مسلسل نکاسی کے باعث زمین کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ مختلف قومی و بین الاقوامی اداروں سے حاصل کردہ واٹر ٹیبل ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ زمین ہر سال 10 سے 16 سینٹی میٹر تک نیچے دھنس رہی ہے۔ ہم امریکی یونیورسٹیز کے ساتھ کام کررہے ہیں اور اس کے ساتھ انہوں نے ہمیں یہ مشینیں دی ہیں اور ہم ان کو استعمال کر رہے ہیں اور زمین کے دھنسنے کا عمل کا بھی تو اسی طریقے سے ہمارے کچھ اسٹوڈنٹ جو پی ایچ ڈی کے لیے فارن کنٹریز گئے ہوئے ہیں اور وہاں سے بھی سیٹلائٹ کے ذریعے اس علاقے کو دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں 2006 سے زمین کے دھنسنے کے عمل کی نگرانی کے لیے متعدد مشینیں نصب کی گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں کوئٹہ کے مرکزی حصے کی زمین تقریباً 50 سینٹی میٹر نیچے جا چکی ہے۔ تحقیق کے مطابق، گزشتہ ایک صدی کے دوران زیرِ زمین پانی کے بڑے ذخائر ختم ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے اندر خالی جگہیں بن گئی ہیں اور مٹی بیٹھ چکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس عمل سے عمارتوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور زمین میں کریکس پیدا ہو رہے ہیں، جو کسی بڑے زلزلے کی صورت میں سنگین خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ شہر کے نیچے کی زمین کئی جگہوں پر کمزور ہوچکی ہے۔
دین محمد کاکڑ نے بتایا کہ 1880ء میں جب ریلوے کالونی میں پہلا ٹیوب ویل لگایا گیا تو پانی محض 120 سے 140 فٹ کی گہرائی پر دستیاب تھا، جس کا پانی بغیر موٹر کے پچاس فٹ تک نکل رہا تھا، لیکن اب واٹر ٹیبل سینکڑوں فٹ نیچے جا چکا ہے۔ نتیجتاً شہریوں کو مسلسل زیادہ گہرے ٹیوب ویل لگانے پڑ رہے ہیں۔
دین محمد نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غیر منصوبہ بندی کے تحت بے شمار ٹیوب ویلز بغیر کسی فاصلہ بندی کے لگائے جارہے ہیں، جس سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔ سریاب سے شہر کے وسط تک بیشتر کنویں خشک ہوچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ زمین کے بیٹھ جانے کے بعد اب ان علاقوں کو دوبارہ ریچارج کرنا ممکن نہیں رہا کیونکہ مٹی نے پانی کے ذخائر کی جگہ بھرلی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو معمولی زلزلہ بھی بڑے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ پانی کی بجٹنگ ضروری ہے، یعنی جتنا پانی زمین سے نکالا جائے اتنا ہی بارش یا دیگر ذرائع سے واپس زمین میں جذب کیا جائے۔ اس کے لیے بارش کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر ریچارج ویلز کے ذریعے دوبارہ زیرِ زمین پہنچانا ہوگا۔
دین محمد کاکڑ نے اس بات پر زور دیا کہ کوئٹہ کے لیے قریبی علاقوں سے پانی ٹرانسپورٹ کرنے کے منصوبے شروع کیے جائیں اور بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں، مانگی ڈیم اور اس جیسے دوسرے منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ مستقبل کے بحران سے بچا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، مگر گلوبل وارمنگ کے اثرات غریب ممالک پر زیادہ پڑ رہے ہیں۔ سیلاب اور خشک سالی دونوں نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ کوئٹہ میں آبادی میں اضافے کی وجہ سے بھی پانی کا استعمال زیادہ ہوا۔ اس کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے وہ 22 سے 23 لاکھ ہوگئی ہے، جس میں باہر سے بھی لوگ شامل ہورہے ہیں، یہاں پر پانی ختم ہوچکا ہے اور یہ کیپ ٹاؤن بن چکا ہے، انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل کوئٹہ میں زیادہ بارشیں ہونے سے جزوی طور پر واٹر ٹیبل میں بہتری آئی ہے۔ تاہم اگر پانی کے ضیاع کو روکا نہ گیا تو کوئٹہ ویلی میں مستقل طور پر نہ صرف پانی کی قلت برقرار رہ سکتی ہے بلکہ زمین دھنسنے کے جاری عمل سے بڑی تباہی بھی آسکتی ہے۔