جاپان نے صوبائی اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے دنیا کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے تمام تر تیاری مکمل کرلی ہے اسے فوکوشیما جوہری حادثے کے تقریباً 15برس بعد ملک کی نیوکلیئر توانائی کی طرف واپسی کا ایک اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔
رائٹرز کے مطابق ٹوکیو سے 220 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع کاشیوازاکی-کاریوا نیوکلیئر پاور پلانٹ ان 54 ری ایکٹرز میں شامل تھا جنہیں 2011 کے زلزلے اور سونامی کے بعد اس وقت بند کر دیا گیا تھا جب فوکوشیما ڈائیچی پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا اور چرنوبل کے بعد دنیا کا بدترین جوہری حادثہ پیش آیا۔
اس کے بعد جاپان اب تک 33 قابل استعمال ری ایکٹرز میں سے 14 کو دوبارہ فعال کر چکا ہے کاشیوازاکی-کاریوا پہلا پلانٹ ہو گا جسے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ٹیپکو) دوبارہ چلائے گی۔پیر کو نیگاتا صوبائی اسمبلی نے گورنر ہیدیئو ہانازومی پر اعتماد کی ووٹنگ منظور کر لی جنہوں نے گزشتہ ماہ پلانٹ کی بحالی کی حمایت کی تھی جس کے بعد عملی طور پر پلانٹ کی دوبارہ سرگرمی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔تاہم اسمبلی اجلاس کے دوران اس معاملے پر مقامی آبادی میں گہری تقسیم نمایاں رہی، باوجود اس کے کہ بحالی سے نئی ملازمتوں اور بجلی کے ممکنہ طور پر کم نرخوں کی توقع کی جا رہی ہے۔
اسمبلی کے ایک رکن نے ووٹنگ سے قبل کہاکہ یہ محض ایک سیاسی سمجھوتہ ہے جس میں نیگاتا کے عوام کی رائے کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ادھر اسمبلی کے باہر 300 کے قریب مظاہرین شدید سردی میں بینرز اٹھائے کھڑے رہے جن پر کاشیوازاکی-کاریوا کی بحالی نامنظور اور فوکوشیما کی حمایت جیسے نعرے درج تھے۔
جاپانی سرکاری نشریاتی ادارے این ایچ کے کے مطابق ٹیپکو 20 جنوری کو پلانٹ کے سات میں سے پہلے ری ایکٹر کو دوبارہ فعال کرنے پر غور کر رہی ہے۔ٹیپکو کے ترجمان ماساکاتسو تاکاتا نے کہاکہ ہم اس بات کے پختہ عزم پر قائم ہیں کہ ایسا حادثہ دوبارہ کبھی پیش نہ آئے اور نیگاتا کے عوام کو کسی قسم کے خوف کا سامنا نہ کرنا پڑے تاہم انہوں نے بحالی کے حتمی وقت پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
2011 میں فوکوشیما کے اطراف سے 1 لاکھ 60 ہزار افراد کے ساتھ نقل مکانی کر کے نیگاتا میں بسنے والی 52 سالہ آیاکو اوگا نے بھی احتجاجی مظاہرے میں شرکے کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم جوہری حادثے کے خطرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اس لیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
جاپانی وزیراعظم سانائے تاکائیچی توانائی کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور مہنگے درآمدی ایندھن کے اخراجات کم کرنے کے لیے نیوکلیئر پلانٹس کی بحالی کی حامی ہیں۔اس وقت جاپان کی 60 سے 70 فیصد بجلی درآمدی فوسل فیول سے پیدا ہوتی ہے جبکہ گزشتہ سال ملک نے مائع قدرتی گیس اور کوئلے کی درآمد پر 10.7 ٹریلین ین خرچ کیے۔جاپان نے 2040 تک بجلی کے مجموعی مکس میں نیوکلیئر توانائی کا حصہ دوگنا کر کے 20 فیصد تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق کاشیوازاکی-کاریوا کی بحالی عوامی قبولیت کے ساتھ مکمل ہونا ان اہداف کے حصول کی جانب ایک اہم سنگِ میل ہو گاتاہم احتجاج میں موجود آیاکو اوگا کے لیے یہ بحالی ایک خوفناک یاد دہانی ہے۔انہوں نے کہاکہ بطور فوکوشیما حادثے کی متاثرہ، میری خواہش ہے کہ جاپان یا دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی اور شخص دوبارہ کسی جوہری حادثے کا شکار نہ ہو۔