فیضان جتک قتل کیس میں سزائے موت:’ذمہ داران کو سزا سے انصاف کا بول بالا ہوا ہے‘

پانچ مئی 2021 کی شب کوئٹہ میں طالبعلم فیضان جتک کے قتل کے الزام میں مقامی عدالت نے پولیس کے ایگل سکواڈ کے چاراہلکاروں کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر موت، عمر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی ہیں۔

'ہمیں امید تھی کہ عدالت سے ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ میرابھائی بے گناہ تھا، جنھیں پولیس کے اہلکاروں نے کسی جوازکے بغیرگولی ماری، جس کے باعث وہ نوجوانی ہی میں ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑگیا'۔

یہ کہنا تھا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے محمودجتک کا جن کے چھوٹے بھائی فیضان جتک 5 مئی 2021 کی شب کوئٹہ پولیس کے ایگل سکواڈ کے اہلکاروں کی فائرنگ سے مارے گئے تھے۔

فیضان جتک کے قتل کے الزام میں پولیس کے ایگل اسکواڈ کے چاراہلکاروں کو گرفتارکیا تھا، جن کے خلاف ایڈیشنل سیشن جج سریاب ون کی عدالت میں مقدمہ چلا۔

عدالت نے قتل عمد یعنی ارادے سے قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پرچاروں اہلکاروں میں سے ایک کو سزائے موت جبکہ تین کو عمرقید اورجرمانوں کی سزا سنائی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمود جتک نے کہا کہ ’نوجوان بھائی کی ناگہانی موت سے ہمیں جو زخم لگا وہ مندمل تونہیں ہوسکتا لیکن اس فیصلے سے انصاف کا بول بالا ہوا ہے اوراس سے شاید دوسرے لوگ اس طرح کے ظلم اوراذیت سے دوچار نہ ہوں، جس سے ہمارے خاندان کوہونا پڑا'۔

فیضان جتک کے خاندان کے وکیل بیرسٹرعامرمحمد لہڑی نے بتایا کہ ایگل سکواڈ کے اہلکاروں کے پاس فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، جس کی بنیاد پرعدالت نے انھیں قتل عمد کے جرم کا مرتکب قرار دیا۔

تاہم ملزمان کے وکیل نورجان بلیدی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پولیس کے اہلکاروں نے گاڑی پربلا جوازفائرنگ نہیں کی تھی بلکہ تھریٹ الرٹ کی وجہ سے انھیں مجبوراً فائرنگ کرنی پڑی تھی کیونکہ گاڑی ان کے اشارے پرنہیں رکی تھی۔

5 مئی 2021 کی شب کیا ہوا تھا؟

اس روزفیضان جتک اوران کے کزن شہزاد علی ایک تھری ڈور پراڈو گاڑی میں شہر کے جناح ٹاؤن کے علاقے سے اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے ان کی گاڑی کو امداد چوک کے قریب روکنے کی کوشش کی تھی لیکن گاڑی کے نہ رکنے پرچاروں اہلکاروں نے موٹر سائیکلوں پر اس کا پیچھا کیا تھا۔

سریاب روڈ پر سدا بہارٹرمینل کے سامنے اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار فیضان جتک ہلاک جبکہ ان کے کزن شہزاد اورایک اور راہگیر الطاف حسین زخمی ہوئے تھے۔

استغاثہ کے مطابق گاڑی پرفائرنگ کرنے کے بعد اہلکاروں نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کی بجائے سول لائنز پولیس سٹیشن لے گئے تھے۔ اس واقعے کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا تھا اورفائرنگ میں ملوث اہلکاروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

چاروں اہلکاروں کے خلاف سریاب پولیس نے مقدمہ درج کرکے ان کو گرفتار کرلیا تھا۔

فیضان جتک قتل
BBC

عدالت نے چار اہلکاروں میں کس اہلکار کو موت کی سزاسنائی؟

چاروں اہلکاروں کے خلاف مقدمے کا چالان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج سریاب ون کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ فریقین کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے اس پرفیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے سناتے ہوئے عدالت کے جج اورنگزیب گھمن نے چاروں اہلکاروں کوجرم کا مرتکب قراردیا۔

عدالت نے کہا کہ استغاثہ نے جو شواہد اورگواہ پیش کیے اس سے ملزمان کے خلاف قتل عمد ثابت ہوا۔ فیصلے کے مطابق سلمان خان نے فائرنگ کی جس سے فیضان جتک زخمی ہوا اوراس کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہوئی۔

عدالت نے کہا کہ ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ جس کا فائدہ پہنچا کرسلمان کی سزا میں کوئی تخفیف یا کمی کی جائے۔ عدالت نے انھیں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302-B کے تحت سزائے موت کے علاوہ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔

سلمان خان کو فیضان کے کزن شہزاد علی اورایک راہگیر کو زخمی کرنے کے جرم میں بھی پانچ پانچ سال قیداورپانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔ جبکہ مقتول کی گاڑی کو نقصان پہنچانے کے جرم میں انھیں پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

عدالت نے تین دیگر اہلکاروں ارسلان، حامد خان اور عبدالظاہرکوتعزیرات پاکستان کے دفعہ 302، سیکشن 34 کے تحت عمر قید اور جرمانوں کی سزا سنائی۔

یہ بھی پڑھیے

فیضان جتک: کوئٹہ پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت، سوشل میڈیا پر صارفین کا اظہار افسوس

فیضان جتک: کوئٹہ میں ’بے گناہ‘ طالب علم کی ہلاکت کے بعد چار پولیس اہلکار زیر حراست، تحقیقات جاری

اسامہ ستی اور وقاص گجر: کیا مشرف دور کی اصلاحات 2021 میں ان ہلاکتوں کی وجہ بنیں؟

’شاید اس فیصلے سے دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں‘

محمود جتک نے عدالت کے فیصلے پراپنے ردعمل میں کہا کہ مجھےاورمیرے خاندان کو انصاف کی توقع تھی کیونکہ ہمارابھائی بالکل بے گناہ تھا اورانھوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا تھا کہ ان کو گولی ماردی جاتی۔

انھوں نے کہا کہ ’پولیس والوں کا کہنا ہے کہ میرا بھائی اشارے پرنہیں رکا۔ اگروہ پولیس والوں کے اشارے پرنہیں رکا تھا توپولیس اہلکار براہ راست ان کو گولی مارنے کی بجائے ان کو گرفتارکرسکتے تھے۔ لیکن انھوں نے براہ راست میرے بھائی اورکزن پرگولی چلائی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں اس بات پرخوشی ہے کہ جن لوگوں نے ظلم اورزیادتی کی ان کو عدالت نے سزا دی۔ انھوں نے کہا کہ یقیناً اس فیصلے سے ہمارا بھائی واپس تونہیں آئے گا لیکن انصاف کا بول بالا ہوا، جس پروہ اوران کے خاندان کے لوگ مطمئن ہیں۔

محمود جتک کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے شاید لوگوں کوعبرت حاصل ہواورآئندہ شاید اس فیصلے سے دوسرے لوگ ہم لوگوں کی طرح بے انصافی اوراذیت کا شکار نہ ہوں۔

ملزمان کا موقف کیا تھا؟

ملزمان کے وکیل نورجان بلیدی ایڈووکیٹ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جس رات یہ واقعہ پیش آیا تھا اس رات کوئٹہ شہر میں پولیس کی جانب سے تھریٹ الرٹ جاری ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے باعث شہرمیں پولیس کی جانب سے سخت چیکنگ کی جا رہی تھی تاکہ شہرمیں کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش نہ ہو۔

انھوں نے کہا کہ جس گاڑی میں یہ واقعہ پیش آیا وہ نہ صرف ایگل سکواڈ والوں کے اشارے پرنہیں رکی تھی بلکہ اس کے شیشے بھی کالے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ہائیکورٹ کے بھی سخت احکامات تھے کہ جن گاڑیوں کے کالے شیشے ہوں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ ان کے مطابق اس گاڑی کے شیشے بھی کالے تھے، جسے مشکوک جان کرایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے اسے امداد چوک پررکنے کا اشارہ دیا تھا لیکن گاڑی میں بیٹھے لوگوں نے اسے روکا نہیں تھا‘۔

انھوں نے کہا کہ گاڑی کے نہ رکنے کے بعد ایگل سکواڈ کے اہلکاروں نے دورتک اس کا پیچھا بھی کیا، جس کا اندازہ اس سے لگایا جاتا ہے کہ امداد چوک سے گاڑی سریاب روڈ تک پہنچی تھی اوروہاں بھی وہ رانگ سائیڈ پرگئی تھی جس کے باعث پولیس اہلکاروں نے مشکوک جان کراس پرگولی چلائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والوں نے گاڑی پربہت زیادہ گولیاں بھی نہیں چلائی تھی جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کوپچھلی سائیڈ سے دو گولیاں لگی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ 'اہلکاروں نے فائرنگ کی تھی لیکن یہ فائرنگ کسی کو عمداً جان سے مارنے کے لیے نہیں کی گئی تھیں بلکہ گاڑی کے نہ رکنے اوراس کے کالے شیشوں کی بنیاد پر اسے مشکوک جان کرشہریوں کو کسی ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے اس پردوگولیاں چلائی گئی تھیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل دائرکرنا پولیس کے اہلکاروں کا حق ہے اور اوراگرانھوں نے اس کے خلاف اپیل دائرکرنے کے لیے کہا تو ہم ہائی کورٹ میں اپیل دائرکریں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.