لوکل ہائبرڈ گاڑیوں کی بڑھتی مانگ یا کمپنیوں کا دباؤ، اسمبل کی جانے والی ’مہنگی‘ کاروں کے لیے مراعات کیوں؟

پاکستان کی سڑکوں پر اب آپ کو کئی ہائبرڈ گاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملک میں ہائبرڈ کاروں کی ایک مارکیٹ بن چکی ہے۔مگر اب بیرون ملک سے ہائبرڈ کار امپورٹ کرنے پر ڈیوٹی میں رعایت ختم کر دی گئی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ مانگ پاکستانی اسمبلرز پوری کر سکیں گے جنھیں 2026 تک سیلز ٹیکس میں رعایت ملنے کی توقع ہے۔

جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو پاکستان میں ہائبرڈ گاڑیاں بنانے والی ایک کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار نے مجھے فون پر بتایا کہ حکومت نے ہم پر ایک ’سیکرٹ اٹیک‘ (خفیہ حملہ) کر دیا ہے۔

انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ایک طرف وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چاہتے ہیں کہ مقامی صنعت ہائبرڈ گاڑیوں کی پیداوار بڑھائے مگر ساتھ ہی انھوں نے مقامی سطح پر تیار کی جانے والی ہائبرڈ گاڑیوں پر رعایتی سیلز ٹیکس 8.5 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا ہے۔ جس کے بعد اب ان کی کمپنی کی ایک ہائبرڈ کار کی قیمت میں قریب 20 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا۔

مگر پھر آٹو کمپنیاں حرکت میں آئیں۔ وہ اس لیے کہ ان کمپنیوں نے ملک میں ہائبرڈ گاڑیاں تیار کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

وزارت صنعت و پیداوار نے حکومت کو تجویز دی کہ یہ اقدام موجودہ اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا اور جب معیاری ہائبرڈ کار پاکستان میں بن سکتی ہے تو اس کے لیے مراعات جاری رکھنی چاہییں۔

اسی کے ساتھ 25 جون کو وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ کی منظوری سے قبل ہی سینیٹ کی تجاویز اور ’مفاد عامہ کے پیش نظر‘ لوکل ہائبرڈ گاڑیوں پر رعایتی سیلز ٹیکس بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔

حکومت کو امید ہے کہ اس اقدام سے ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں میں سرمایہ کاری ہو سکے گی مگر ناقدین اس حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں۔ اگرچہ موجودہ آٹو پالیسی کے تحت 2026 تک ملک میں لوکل ہائبرڈ کاروں کو مراعات دی گئی ہیں تاہم اسی پالیسی میں اسمبلرز سے لوکلائزیشن بڑھانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

بعض مبصرین نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ حکومت نے ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر تو ڈیوٹی بڑھائی ہے تاہم وہ کمپنیاں جو پارٹس درآمد کر کے گاڑیاں اسمبل کرتی ہیں، ان کے لیے سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کی مد میں مراعات کو برقرار رکھا ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کی مانگ مقامی کمپنیاں کیسے پوری کریں گے۔

اب تک صرف تین کمپنیاں ٹویوٹا، ہنڈائی اور ہوال ملک میں ہائبرڈ ٹیکنالوجی پر چلنے والی گاڑیاں بنا رہی ہیں جبکہ حکام کے بقول دیگر کمپنیوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

’یہ کمپنیاں اتنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں کہ انھوں نے رعایت بحال کروا لی‘

پاکستان کی سڑکوں پر اب آپ کو کئی ہائبرڈ گاڑیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ملک میں ہائبرڈ کاروں کی ایک مارکیٹ بن چکی ہے۔

مگر اب بیرون ملک سے ہائبرڈ کار درآمد کرنے پر ڈیوٹی میں رعایت ختم کر دی گئی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ مانگ پاکستانی کار اسمبلرز پوری کر سکیں گے جنھیں 2026 تک سیلز ٹیکس میں رعایت ملنے کی توقع ہے۔

پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی اسوسی ایشن سے وابستہ شوکت قریشی کہتے ہیں کہ یہ لوکل کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ ’انھوں نے آخری وقت میں ہائبرڈ گاڑیوں پر عائد کردہ (اضافی) ٹیکس ہٹوا لیا۔‘

وہ سنہ 2006 میں حکومت پاکستان کے کسٹم آرڈر ایس آر او 655 کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کمپنیوں کو وقتی طور پر پاکستان میں نہ بننے والے پارٹس پر درآمدی ڈیوٹی میں رعایت دی گئی تھی جو اب کئی سال سے جاری ہے۔ ان کی رائے میں اسی کی وجہ سے ملک میں صرف گاڑیوں کی اسمبلی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے نہ کہ لوکلائزیشن کی۔

شوکت قریشی کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیوں کا رجحان پیدا ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں زیادہ توجہ پلگ اِن ہائبرڈ یا ہائبرڈ الیکٹرک کاروں پر دی جا رہی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ ہائبرڈ گاڑیوں میں ٹویوٹا سب سے آگے ہے مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان میں کاروں کی اسمبلی کے لیے یہ کمپنیاں کتنے فیصد پارٹ درآمد کر رہی ہیں اور اس سے ملک کی معیشت کو کتنا نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان موٹر ڈیلرز اسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ گاڑیاں ہمارے ملک میں بن رہی ہوں اور ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی عمل میں آ گئی ہو تو بات سمجھ آتی ہے۔۔۔ مگر یہ تو ہائبرڈ کار کو امپورٹ کر کے یہاں صرف جوڑ رہے ہیں۔‘

پاکستان کی آٹو انڈسٹری ڈیویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی (2021-26) میں ہائبرڈ اور الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا گیا تھا مگر ساتھ میں ان گاڑیوں کے پرزہ جات کی مقامی سطح پر تیاری پر بھی زور دیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے مطابق مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے پارٹس کی فہرست کو اپ ڈیٹ کیا جاتا رہے گا اور ان پارٹس کو درآمد کرنے پر بھاری ڈیوٹی ادا کرنا ہوگی۔

مگر ناقدین کا خیال ہے کہ اس پالیسی پر اور اس سے قبل ماضی کی اُن پالیسیوں پر عمل نہیں ہوا جن میں لوکلائزیشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ اگر سستی ہائبرڈ گاڑیاں ملنے لگیں تو اس سے بہتر کچھ نہیں ہوسکتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ ادھر صرف سی کے ڈی اور ایس کی ڈی گاڑیاں تیار ہوتی ہیں۔ ’امپورٹ کر کے یہاں جوڑی جانے والی گاڑی ہماری قوت خرید میں نہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ کتنی گاڑیاں اسمبل ہوئی ہیں اور کتنی فروخت ہوئی ہیں؟‘

وہ کہتے ہیں کہ سڑکوں پر نظر آنے والی اکثر ہائبرڈ گاڑیاں درآمد شدہ ہیں کیونکہ وہ سستی اور معیاری تھی، اسی لیے صارفین نے انھیں ترجیح دی۔ صارفین میں اس حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں کہ آیا معیار اور قیمت کے اعتبار سے پاکستانی اسمبلرز درآمد شدہ ہائبرڈ گاڑیوں کی جگہ لے پائیں گے۔

پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق نئے بجٹ سے جس امپورٹڈ ہائبرڈ گاڑی پر 29 لاکھ روپے کی ڈیوٹی بنتی تھی، اب وہ 44 لاکھ روپے بن جائے گی۔ یعنی مقامی صنعت کے فروغ کے لیے ان کی قیمت بڑھے گی۔ ’ڈیوٹی میں 13 سے 15 لاکھ روپے بہت بڑا فرق ہے۔ یہ ان کمپنیوں کے لیے کیا جا رہا ہے جو کہ خود سی کے ڈی اور ایس کے ڈی ہائبرڈ گاڑیاں امپورٹ کرتی ہیں۔‘

پاکستانی حکومت کو ہائبرڈ گاڑیوں پر رعایت بحال کیوں کرنا پڑی؟

وزارتِ صنعت و پیداوار کے ماتحت ادارے انجینیئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے ترجمان عاصم ایاز کا کہنا ہے کہ ٹویوٹا، ہوال اور ہنڈائی نے ملک میں ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری کے لیے کافی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ تین دیگر کمپنیوں نے اس حوالے سے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ہنڈا، سوزوکی اور کِیا شامل ہیں۔

حکام کے مطابق گذشتہ برسوں کے دوران انڈس موٹر کمپنی (ٹویوٹا) کی جانب سے ہائبرڈ گاڑیاں متعارف کرانے کے لیے ملک میں 100 ملین ڈالر، سازگار انجینیئرنگ ورکس (ہوال) 15 ملین ڈالر اور ہنڈائی نشاط نے 10 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

اسی لیے جہاں پاکستان میں مقامی سطح پر تیار کردہ تمام گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد ہے وہیں ہائبرڈ گاڑیاں پر سیلز ٹیکس میں رعایت برقرار رکھتے ہوئے اسے 8.5 فیصد رکھا گیا ہے۔

ایک کمپنی کے عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم نے اس کے لیے اتنی سرمایہ کاری کی ہے اور 2026 تک کے لیے بنائی گئی آٹو پالیسی کے تحت آپ ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس نہیں چھیڑ سکتے۔‘

وزارتِ صنعت و پیداوار کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 کے اواخر میں آنے والی لوکل ہائبرڈ گاڑیاں 9500 صارفین نے خریدیں جبکہ اس دوران درآمد شدہ ہائبرڈ گاڑیوں کی سیلز کی تعداد تین ہزار رہی تھی۔

عاصم ایاز مقامی طور پر تیار کی گئی ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں رعایت کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لوکل مینوفیکچررنگ کے معیار میں کوئی کمی نہیں ہے اور یوں صارفین کو گاڑی کی خریداری کے بعد بہتر سروسز اور طویل بیٹری وارنٹی مل سکتی ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے برعکس درآمد کی جانے والی ہائبرڈ گاڑیوں سے ملک میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔

پاکستانی حکومت نے ابتدائی طور پر بجٹ میں لوکل ہائبرڈ گاڑیوں کو سیلز ٹیکس پر دی گئی رعایت ختم کر دی تھی مگر اس رعایت کو اس وقت بحال کرنا پڑا اور کار کمپنیوں کے ساتھ ساتھ وزارت صنعت و پیداوار نے اس کی مخالفت کی۔

ایک خط میں وزارت نے کہا تھا کہ یہ اقدام اس آٹو پالیسی 2021-26 سے متضاد ہے جو ملک میں ہائبرڈ سمیت نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ’سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر اضافی سیلز ٹیکس کا نفاد ہائبرڈ الیکٹرک وہیکل ٹیکنالوجی میں موجودہ اور مستقبل کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچائے گا۔‘

اسے خدشہ تھا کہ اگر ہائبرڈ گاڑیوں پر سیلز ٹیکس عام گاڑیوں کے برابر کر دیا گیا تو اس سے ان کمپنیوں سمیت دیگر کمپنیوں - جیسے ہنڈا، سوزوکی اور کیا جو ہائبرڈ گاڑیوں پر سرمایہ کاری پر غور کر رہی ہیں – کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے۔

وزارتِ صنعت و پیداوار کا خیال ہے کہ ملک میں مکمل الیکٹرک گاڑیوں کا رجحان آنے میں کئی چیلنجز ہیں جیسے چارجنگ انفرا سٹرکچر کی عدم دستیابی اور ایسے میں ہائبرڈ گاڑیوں بننے سے نہ صرف ملک میں سرمایہ کاری آ سکتی ہے بلکہ ملک ماحول دوست گاڑیوں کی طرف ایک قدم بڑھا سکتا ہے۔

اس نے اپنے خط میں وزارت خزانہ کو بتایا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کے ساتھ ساتھ ہائبرڈ گاڑیوں کی قیمتیں بھی قدرے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ ان میں اضافی بیٹریاں، سینسر، بیٹری مینجمنٹ سسٹم، موٹر، کنٹرولر اسمبلی اور وولٹیج کنٹرول یونٹ وغیرہ ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق ہائبرڈ گاڑیوں کی رینج ’18 سے 24 کلو میٹر فی لیٹر ہے اور ان کا (ماحول کے لیے نقصان دہ) اخراج نسبتاً کم ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.