آرٹیکل 245 اے اور رولز آف انگیجمینٹ: اسلام آباد اور پنجاب میں تعینات فوجی دستوں کے پاس کیا اختیارات ہیں؟

پاکستان کی وفاقی حکومت کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے بھی آرٹیکل 245 کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا ہے۔
islamabad
Getty Images

پاکستان کی وفاقی حکومت کے بعد پنجاب کی صوبائی حکومت کی جانب سے بھی آرٹیکل 245 کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو طلب کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ پنجاب کی جانب سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پنجاب کی حدود میں آنے والے ائیر پورٹس، ائیر بیسسز اور دیگر اہم مقامات پر فوج تعینات ہو گی، جبکہ امن قائم رکھنے کے لیے فوج اینٹی رائٹس اختیارات استعمال کرنے کی مجاز ہو گی۔

اس کے علاوہ سنیچر کی صبح مجسٹریٹ اسلام آباد نے پاکستانی فوج کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں فوجی دستوں کو حاصل اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔

دونوں حکومتوں کی جانب سے اس غیر معمولی اقدام کی وجہ رواں ماہ کے وسط میں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے لیے امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا بتائی گئی ہے۔

تاہم یہ اقدام ایک ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اسلام آباد اور لاہور میں احتجاج کر رہی ہے اور پولیس کی جانب سے سابق وزیرِ اعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت کی بہنوں سمیت متعدد کارکنان کو گرفتار کیے جانا کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

خیال رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس اسلام آباد میں 15 اور 16 اکتوبر کو منعقد ہونا ہے اور اس میں انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر سمیت تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

یاد رہے کہ آرٹیکل 245 کے تحت ماضی میں بھی مختلف حکومتوں کی جانب سے فوج طلب کی جاتی رہی ہے۔سنہ 2020 اور 2021 میں کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کروانے کے لیے عمران خان حکومت کی جانب سے اسی آرٹیکل کے تحت فوج کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2017 کے ٹی ایل پی کے فیض آباد دھرنے اور سنہ 2014 کے عمران خان اور طاہر القادری دھرنے کے لیے بھی فوج کو اسی آرٹیکل کے تحت طلب کیا جاتا رہا ہے۔

آرٹیکل 245 کیا ہے؟

آئین کے اس آرٹیکل کے تحت مسلح افواج، وفاقی حکومت کی ہدایات کے تحت، بیرونی جارحیت یا جنگ کے خطرے کے خلاف پاکستان کا دفاع کریں گی اور قانون کے تابع شہری حکام کی امداد میں، جب ایسا کرنے کے لیے طلب کی جائیں، کام کریں گی۔

آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو طلب کیا جا سکتا ہے جبکہ فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

آرٹیکل 245 کے مطابق فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو بھی ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ہے۔

آرٹیکل 245 کے عمل میں لانے کے بعد ہائی کورٹ کے اختیارات صرف اس آرٹیکل کی حد تک معطل ہو جاتے ہیں اور وہ اس حکم نامے کو چیلنج نہیں کر سکتیں۔

آرٹیکل کی تین شقیں درجِ ذیل ہیں:

  • شق 1 کے تحت وفاقی حکومت کی طرف سے جاری شدہ کسی ہدایت کے جواز کو کسی عدالت میں زیرِ اعتراض نہیں لایا جائے گا۔
  • شق 2 کے مطابق کوئی عدالت عالیہ کسی ایسے علاقے میں، جس میں پاکستان کی مسلح افواج فی الوقت آرٹیکل 245 کی تعمیل میں شہری حکام کی مدد کے لیے کام کر رہی ہوں، آرٹیکل 199 کے تحت کوئی اختیارِ سماعت استعمال نہیں کرے گی، مگر شرط یہ ہے کہ اس شق کا اس دن سے عین قبل جس پر مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لیے کام کرنا شروع کیا ہو، کسی زیرِ سماعت کارروائی سے متعلق عدالت عالیہ کے اختیار سماعت کو متاثر کرنا مقصود نہیں ہو گا۔
  • شق 3 میں محولہ کسی علاقہ سے متعلق کوئی کارروائی جسے اس دن یا اس کے بعد دائر کیا گیا ہو، جبکہ مسلح افواج نے شہری حکام کی مدد کے لے کام شروع کیا ہو اور جو کسی عدالتِ عالیہ میں زیرِ سماعت ہو، اس عرصے کے لیے معطل رہے گی۔
Army
BBC

اسلام آباد میں تعینات فوجی دستوں کے پاس کیا اختیارات ہیں؟

سنیچر کی صبح مجسٹریٹ اسلام آباد نے پاکستانی فوج کے ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو ایک مراسلہ لکھا ہے جس میں فوجی دستوں کے اختیارات کی وضاحت کی گئی ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق اس مراسلے میں جو اہم نقطہ ہے وہ فوجی دستوں کو گولی چلانے کا اختیار ہے۔ خیال رہے کہ فوج کے پاس یہ اختیار پہلے سے موجود ہوتا ہے، تاہم اس غیرمعمولی مراسلے میں ہر قسم کی صورتحال میں کیا راستہ اختیار کرنا ہے، وہ طے کر دیا گیا ہے۔

اس سے قبل سنہ 2014 میں عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران یہ صورتحال متعدد بار پیش آئی تھی، جب ڈیوٹی پر موجود بعض پولیس اہلکاروں نے اپنے افسران اور اس وقت کے وزیر داخلہ کے زبانی احکامات ماننے سے انکار کیا تھا اور یہ مطالبہ کیا تھا کہ انھیں ’اِن رائٹنگ‘ ہدایات جاری کی جائیں۔

یہ امکان ہے کہ پاکستانی فوج نے وفاقی حکومت سے واضح انداز میں ہدایت نامہ جاری کرنے کی درخواست کی جس کے بعد وفاق نے ’رولز آف انگیجمنٹ‘ طے کیے ہیں۔

اس مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں تعیناتی کے دوران فوجی دستے ’ہوسٹائل‘ عناصر جن میں ’پرتشدد ہجوم‘ اور ’شرپسند افراد‘ شامل ہیں، کے خلاف کارروائی کریں گے۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ:

  • ایسے ہجوم کو پہلے وارننگ جاری کی جائے۔
  • ’وارننگ شاٹس‘ یعنی ہوائی فائرنگ کی جائے۔
  • ہجوم کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کا فوری اور موثر جواب دیا جائے۔
  • فورس کا کم سے کم استعمال کیا جائے

تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’کوئی رُول، قانون کسی فرد کو اپنے دفاع یا اس عمارت یا اینٹیٹی کی حفاظت جو اس کو سونپی گئی ہے، کے راستے میں نہیں آ سکتا۔‘

قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی عدم موجودگی میں فوج کے پاس کسی بھی شخص کو حراست میں لینے کا اختیار بھی ہو گا جو کسی جرم کا مرتکب ہو یا ایسا کرنے کی دھمکی دے۔

اس کے علاوہ الیکٹرانک مانیٹرنگ کا لامحدود اختیار ہو گا۔

دوسری جانب شہر میں موبائل نیٹ ورکس بند ہوئے 40 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور اسلام آباد سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.