’اوور بلنگ‘: صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافی یونٹس کیسے شامل کیے گئے اور اس سے بچا کیسے جائے؟

رواں ماہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں عوام بجلی کے بلوں میں ’اوور بلنگ‘ کی شکایات کر رہے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کر کے صارفین کے بِلوں میں ’اضافی یونٹ شامل کرنے والے‘ افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔‘

کیا اس ماہ آپ نے بھی اپنا بجلی کا بل دیکھ کر یہ ہی سوچا کہ ’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘

رواں ماہ پاکستان کے بیشتر شہروں میں عوام بجلی کے بلوں میں ’اوور بلنگ‘ کی شکایات کر رہے ہیں اور بجلی کے بلوں میں استعمال شدہ یونٹس کی تعداد اور اس کے عوض واجب الادا رقم سے مطمئن نہیں ہیں۔

اس عوامی ردعمل پر وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی بجلی کے بِلوں سے متعلق شکایات پر برہمیکا اظہار کیا ہے۔سنیچر کو جاری کردہ ایک ویڈیو میں انھوں نے وزیر توانائی اویس احمد لغاری کو بجلی صارفین کے بِلوں میں ’مصنوعی طور پر اضافی یونٹ شامل کرنے والے‘ افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے۔

اس ویڈیو میں شہباز شریف کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’جن اہلکاروں نے 200 یونٹ سے ایک یونٹ بڑھایا ہے، انھوں نے غریب صارف پر بہت ظلم ڈھایا ہے۔ جا کر پتا چلائیں کہ وہ کون جلاد ہے۔ ایسے عوام دشمن افسران و اہلکاروں کو معطل کر کے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔‘

مگر جب بی بی سی نے وزیر توانائی اویس احمد لغاری سے وزیر اعظم کے حکم پر پیشرفت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ ریگولیٹر یعنی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے دیکھنے کا ہے اور انھوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ اس کی انکوائری نیپرا سے ہی کرائی جائے۔

وزیر توانائی کے مطابق اب نیپرا بجلی کے صارفین کے بلوں میں ’اضافی یونٹ‘ شامل کیے جانے کے معاملے پر تحقیقات کر کے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گا جس پر ایکشن لیا جائے گا۔

کیا صارفین کے بجلی کے بلوں میں ’اضافی یونٹ‘ شامل کیے گئے؟

بی بی سی کو دیے انٹرویو میں وزیر توانائی اویس لغاری نے بتایا کہ بجلی کے صارفین کی ’اوور بلنگ‘ اور ’اوورچارجنگ‘ کی شکایات کا تعلق دراصل مختلف سلیبز سے ہے۔

مثلاً اگر کوئی صارف 200 سے کم یونٹس استعمال کرتا ہے تو اس کا بل اس وقت کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب یہ یونٹس 201 ہو جائیں۔ اس سے اس صارف کی سلیب تبدیل ہوجاتی ہے اور پھر اسے زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے۔

اویس لغاری کے مطابق اس بار جب بل زیادہ آئے تو لوگوں نے اس پر شکایات درج کروائیں اور اس معاملے پر اب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’اگر اب بھی اووربلنگ ہوئی ہے تو بُرا ہوا ہے۔‘

وزیر توانائی کے مطابق ’اگر اووربلنگ ثابت ہوئی تو صارفین کو ان کے پیسے واپس دیے جائیں گے۔‘ تاہم انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’ہم نے اووربلنگ بہت کم کی ہے اور اس کم عرصے میں بجلی چوروں کا بھی پتا چلایا ہے۔‘

پاکستان میں پاور سیکٹر پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عامر راؤ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بجلی کے جو صارفین لگاتار چھ ماہ تک 200 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں وہ پروٹیکٹڈ یا محفوظ کیٹگری میں آجاتے ہیں اور ان کو سرکار کی طرف سے رعایت ملتی ہے۔‘

مبصرین اس معاملے میں ایک متنازع قانون کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس کے مطابق اگر چھ ماہ میں ایک بار بھی کسی کا بل 200 یونٹ سے بڑھ گیا تو پھر ایسے میں ان صارفین سے سبسڈی یعنی رعایت چھین لی جاتی ہے۔

مگر بہت سے صارفین بجلی کے بلوں سے متعلق ایسے سخت قوائد و ضوابط سے لاعلم رہتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں صارفین کو زیادہ آگاہی دی جاتی ہے۔

Electricity
AFP

بجلی کی ’اووربلنگ‘ کا تنازع کیا ہے؟

بجلی کے بلوں میں اضافی یونٹ شامل کرنا یا صارفین کی اووربلنگ کا معاملہ کوئی نیا نہیں ہے۔

نیپرا نے گذشتہ برس جولائی اور اگست میں بھی اووربلنگ، بے ضابطگیوں اور غیر قانونی اقدامات پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

رواں برس جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں نیپرا نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے خلاف قانون کارروائی شروع کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے ملک بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین سے ’من مرضی‘ کے بل وصول کیے گئے۔

نیپرا کے مطابق ان کمپنیوں کی طرف سے زیادہ بل بھیجنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ بہت کم یونٹس استعمال کرنے والے صارفین نے نالاں ہو کر بل ادا کرنا چھوڑ دیے اور اس سے ریکوریاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔

نیپرا نے ان کمپنیوں کو ہدایات دی کہ وہ نہ صرف فوری طور پر بجلی کے خراب میٹر تبدیل کریں بلکہ میٹر پر نظر آنے والی ریڈنگ کے مطابق ہی استعمال شدہ یونٹس کی تعداد اور واجب الادا رقم طے کریں۔

دراصل رواں سال کی طرح گذشتہ برس جولائی اور اگست کے دوران بھی صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں نیپرا کے دفاتر میں اضافی بلوں سے متعلق شکایات درج کرائی تھیں۔

ان شکایات پر اتھارٹی نے گذشتہ برس 13 ستمبر ایک سماعت کی جس میں تمام بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو طلب کیا گیا اور ان کی جانب سے جواب جمع کرائے گئے۔

نیپرا کی رپورٹ کے مطابق اس سماعت میں یہ چیز سامنے آئی کہ ان کمپنیوں نے میٹر ریڈنگ کے حساب سے بل صارفین کو بل بھیجے مگر میٹر کی تصویر اور جو بل صارفین کو بھیجا گیا اس میں واضح فرق تھا۔

رپورٹ کے مطابق کچھ معاملات میں تو ایسا بھی ہوا کہ میٹر کی تصاویر یا تو دکھائی نہیں دے رہی تھی یا پھر وہ تصاویر سرے سے لی ہی نہیں گئیں۔

صارفین کے بجلی کے بل میں میٹر ریڈنگ کی تصویر دینا لازم ہے تاکہ وہ یقینی بنا سکیں کہ ان سے استعمال شدہ یونٹس کے عوض ہی بل وصول کیا جا رہا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے کچھ صارفین کے میٹرز کی ریڈنگ 30 دن کے بعد کی، جس سے صارفین کو اضافی بل دینا پڑے اور یوں ان کی سلیب میں بھی تبدیلی لائی گئی اور وہ پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹڈ کیٹگری میں چلے گئے۔ یعنی ان سے کم بجلی استعمال کرنے کی رعایت چھین لی گئی۔

بجلی کی اووربلنگ سے صارفین کا بچنا مشکل کیوں؟

نیپرا کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے اختیارات کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ صارفین کی شکایات کا ازالہ ہو سکے اور بےضابطگیوں پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں پر جرمانہ عائد کیے جائیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے صارفین کی اووربلنگ پر کسی کو گرفتار کرنا ’ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔‘

جب میں نے یہی سوال وزیر توانائی اویس لغاری سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ’ہم نے ایف آئی اے کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اووربلنگ کافی حد تک کم ہوئی ہے۔‘

تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید نہیں بتایا کہ اووربلنگ کے ذمہ دار افسران اور اہلکاروں کے خلاف ماضی میں کیا کارروائی کی گئی ہے اور آئندہ ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ بجلی کی اووربلنگ کا تنازع وزیر اعظم شہباز شریف کے سابقہ دور میں منظرعام پر آیا تھا جب وہ پی ڈی ایم اتحاد کا حصہ تھے۔

اس وقت کے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی، جو اب وزیر داخلہ ہیں، نے نیپرا کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ اس تحقیقات میں نیپرا کے مطابق سب سے زیادہ ذمہ دار ملتان (میپکو) اور فیصل آباد (فیسکو) کی تقسیم کار کمپنیاں تھیں۔ یعنی ان کمپنیوں نے سب سے زیادہ صارفین سے بجلی کی اووربلنگ کی تھی۔ جبکہ رپورٹ میں سیاسی تعیناتیوں کو بھی غیر قانونی اقدامات کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

وزیر توانائی اویس لغاری کے مطابق گذشتہ سال نیپرا کی انکوائری کے بعد صارفین کے بجلی کے بل ایڈجسٹ کروائے گئے تھے اور ان کی اووربلنگ کی شکایت دور کی گئی تھی۔

مگر اس شعبے کے ماہرین نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ نیپرا اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے صارفین کو بروقت ریلیف دے سکتا ہے۔

لمز انرجی انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فیاض چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ نیپرا نہ صرف یہ کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بینکوں سے پیسے رکوا سکتا ہے بلکہ اس کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر انھیں حکومت سمیت کٹہرے میں بھی کھڑا کر سکتا ہے۔

تاہم ان کے مطابق صارفین کے حقوق کو یقینی بنانے کی بجائے نیپرا ’صرف سرکاری دائروں میں گھوم رہا ہے اور یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جاتا ہے کہ خط لکھ دیا ہے۔‘

وہ صارفین کے تحفظ کے لیے ایک کنزیومر ایسوسی ایشن بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔

نیپرا کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ صارفین کو ریلیف دینے کے لیے گنجائش موجود ہے اور ان کا ادارہ شکایت کی صورت میں ’کافی حد تک آزادی سے اور میرٹ پر کارروائی عمل میں لاتا ہے۔‘

مگر نیپرا اہلکار کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں رہائشی اور کمرشل استعمال کے لیے بجلی کی ضرورت پوری کرنے والے سولر سسٹمز کی وجہ سے تقسیم کار کمپنیوں کے اہداف متاثر ہوئے ہیں جن کا بوجھ ’کسی نہ کسی طور پر عام صارفین پر منتقل ہوتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

K Electric
Getty Images

صارفین بجلی کے بل میں موجود یونٹس کی تصدیق کیسے کر سکتے ہیں؟

کئی صارفین نے اپنے بجلی کے بل اور میٹر پر ریڈنگ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اس میں واضح فرق کی نشاندہی کی ہے۔

کوئی بھی صارف اپنے بجلی کے بل کی یہ جانچ کر سکتا ہے کہ آیا اس کے استعمال شدہ بجلی کے یونٹس کی تعداد اور واجب الادا رقم درست ہیں۔

بجلی کے بل میں آپ کے میٹر کی پرانی یعنی گذشتہ ماہ کی ریڈنگ اور اس کے ساتھ ساتھ نئی یعنی رواں ماہ کی ریڈنگ دی جاتی ہے اور ریڈنگ کی تصاویر بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ میٹر کی اِن دو ریڈنگز کے بیچ 30 روز سے زیادہ کا وقفہ نہ ہو۔ دونوں ریڈنگز کے فرق کے ذریعے ایک صارف یہ معلوم کر سکتا ہے کہ اس نے گذشتہ ماہ کتنی بجلی استعمال کی ہے۔

اسی طرح صارفین میٹر کی ریڈنگ اور بجلی کے بل پر یونٹس دیکھ کر مصنوعی طور پر یا غلطی سے شامل کیے گئے اضافی یونٹس کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔

آپ کے بجلی کے بل کے کالم نمبر نو میں بجلی کے میٹر کی ریڈنگ دی گئی ہوتی ہے۔ یہ ریڈنگ مہینے میں ایک بار ہی کی جاتیہے۔ اگر آپ کو یہ معلوم ہے کہ آپ کے میٹر کی ریڈنگ نہیں کی گئی تو آپ اس کی اطلاع اپنے علاقے میں واقع بجلی کے دفتر میں دے سکتے ہیں۔

نیپرا کے مطابق ہر ماہ بجلی کے میٹر کی ریڈنگ لی جاتی ہے اور اگر کسی صارف کو لگے کہ ان کے میٹر کی ریڈنگ نہیں لی گئی تو وہ اپنے علاقائی دفتر رابطہ کر سکتے ہیں۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنی کا عملہ یہ ریڈنگ لیتا ہے جسے میٹر ریڈر بھی کہا جاتا ہے۔ عموماً ایک علاقے کے تمام میٹرز کی ریڈنگ مہینے کی ایک ہی تاریخ کو لے جاتی ہے۔

نیپرا کے مطابق میٹر ریڈنگ کی تصویر لینا لازم ہے اور اس تصویر کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے بلنگ سے متعلق شکایات حل کی جاتی ہیں۔

قوانین کے تحت کوئی صارف میٹر ریڈنگ اور بلنگ سے متعلق شکایات نیپرا کو درج کروا سکتا ہے۔

اگر آپ کی ریڈنگ میں بہت زیادہ فرق آ رہا ہے تو پھر یہ آپ کے آئندہ بل میں زیادہ یا بہت کم بل آ سکتا ہے۔ کسی بھی صورت میں اس کی درستگی کرانا ضروری ہے۔

نیپرا کے اعلی عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ جب صارفین کو بل میں بے ضابطگی کی شکایات ہوتی ہیں تو پھر ایسے میں وہ اپنی شکایت نیپرا تک ’آن لائن پورٹل‘ کے ذریعے بھی پہنچاتے ہیں اور پھر نیپرا بجلی تقسیم کرنے والی کمپنی کو بھی سماعت کے لیے طلب کرتی ہے۔

ان کے مطابق صارفین کو جب یہ پتا چل جاتا ہے کہ ان کے ساتھ غیرقانونی سلوک ہوا ہے تو پھر وہ نیپرا کو ڈاک کے ذریعے یا بجلی تقسیم کرنے والے دفتر میں واقع نیپرا کے دفتر میں شکایت درج کراتے ہیں اور پھر ان پر کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

نیپرا ایسی سماعت کے بارے میں اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے تفصیلات جاری کرتا ہے۔

نیپرا کے مطابق وہ معمول میں صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں تاہم اگر وزیراعظم کی طرف سے بھی کوئی ہدایات ہوں تو شرائط و ضوابط کے مطابق تحقیقات عمل میں لائی جاتی ہیں۔

کسی صارف کے بل میں ’اضافی یونٹ‘ کیوں شامل کیے جاتے ہیں؟

صحافی آفتاب میکن کے مطابق بجلی کی تقیسم کار کمپنیاں اپنی ریکوریاں یقینی بنانے کے لیے مفروضے کی بنیاد پر صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافی یونٹ شامل کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ایک صارف میٹر کی ریڈنگ کے بعد بجلی کے بل پر یہ دیکھ سکتا ہے کہ کہیں ’یونٹ ڈیڈکشن‘ کی مد میں اس کے بل میں زیادہ یونٹ تو شامل نہیں کیے گئے ہیں، اسے ’یونٹ پارک‘ کرنا بھی کہا جاتا ہے۔

آفتاب کے مطابق میٹر ریڈر اس مفروضے کی بنیاد پر یہ یونٹ شامل کرتا ہے کہ اس خاص میٹر کا گذشتہ سال جولائی میں بل زیادہ تھا تو ابھی کیوں کم آیا ہے۔ ان کے مطابق میٹر ریڈر یہ فرض کر لیتا ہے کہ یا اس صارف کا میٹر درست نہیں چل رہا، یا وہ صارف کو بتاتے ہیں کہ میٹر سلو ہے اور یہ الٹا لٹکا ہوا ہے۔ ان کے مطابق یہ کمپنیاں لائن لاسز اور بجلی چوری کرنے والے صارفین کے بل بھی ان صارفین سے وصول کرتی ہیں جو پہلے سے ہی بل ادا کر رہے ہوتے ہیں۔

آفتاب میکن نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں ان کے گاؤں کوٹلا رحم علی شاہ میں ان کے گھر پر بجلی کے دو میٹر نصب ہیں۔ رواں ماہ جب ان کا ایک میٹر پر بجلی کا بل گذشتہ سال جولائی کے مقابلے میں کم آیا تو میٹر ریڈر نے بل میں اضافی یونٹ شامل کر دیے۔ ان کے مطابق انھوں نے میٹر ریڈر سے جب اس کی متعلق پوچھا تو انھوں نے اپنے افسران کے نام لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی طرف سے ریکوریوں کے اہداف ہر صورت پورا کرنے کے احکامات ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.