عربوں نے سمندر میں آگ لگانے والے خفیہ ہتھیار ’گریک فائر‘ کا توڑ کیسے کیا؟

سنہ 673 کی اس بے چین رات ایک عرب بحری بیڑا جُونہی بازنطینی دارالحکومت قسطنطنیہ کے قریب پہنچا، آسمان شعلوں سے روشن ہو گیا۔ بازنطینی، عرب حملہ آوروں کے خلاف اپنا خفیہ ہتھیار استعمال کر چکے تھے۔ اس خفیہ ہتھیار کو نام تو کئی دیے گئے مگر ’گریک فائر‘ یا ’آتشِ یونانی‘ زیادہ معروف ہوا۔
greek fire
Getty Images

سنہ 673 کی اس بے چین رات ایک عرب بحری بیڑا جُونہی بازنطینی (چوتھی صدی عیسوی میں سلطنت روم مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی مشرقی حصہ اپنے دار الحکومت بازنطین کے نام پر بازنطینی سلطنت کہلایا) دارالحکومت قسطنطنیہ کے قریب پہنچا، آسمان شعلوں سے روشن ہو گیا۔ بازنطینی، عرب حملہ آوروں کے خلاف اپنا خفیہ ہتھیار استعمال کر چکے تھے۔ اس خفیہ ہتھیار کو نام تو کئی دیے گئے مگر ’گریک فائر‘ یا ’آتشِ یونانی‘ زیادہ معروف ہوا۔

ہم اسے ’یونانی آگ‘ کہہ لیتے ہیں۔

تاریخ نگار تھیوفینس کے مطابق ’یہ نظارہ قیامت خیز تھا کہ پانیوں پر رقص کرتے شعلے عرب جہازوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔ انھیں جلدی سے پسپا ہونا پڑا۔‘

یونانی آگ کا راز

یونانی آگ کہلاتی ’مائع آگ‘ کو سب سے پہلے ساتویں صدی میں کالینیکس نے تیار کیا تھا۔ یہ مسیحی یونانی سنہ 668 میں شام سے قسطنطنیہ فرار ہوئے تھے۔

آتش گیر مائعات یونانی اور رومی جنگوں میں استعمال ہوتے رہے لیکن ان میں سے کوئی بھی یونانی آگ کی طرح مہلک نہیں تھا۔ اس ہتھیار کے اجزاتاریخ کے سب سے بڑے رازوں میں سے ایک ہیں۔

بازنطینیوں نے سات صدیوں تک اس راز کی جی جان سے حفاظت کی۔

مورخین کا قیاس ہے کہ اس میں دیگر اجزا کے علاوہ پیٹرولیم، کوئیک لائم اور سلفر کا مرکب بھی شامل ہو سکتا ہے۔

بازنطینیوں نے اسے پھینکنے کے کئی طریقے وضع کیے، جیسے دستی سائفنز، کیٹاپلٹس، اور آگ اگلتی ٹیوبوں سے لیس خصوصی طور پر تیار کیے گیے جنگی جہاز جنھیں ڈرومونز کہا جاتا تھا۔

جیمز رِڈک پارٹنگٹن اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف گریک فائر اینڈ گن پاؤڈر‘ میںلکھتے ہیں کہ یونانی آگ کا نفسیاتی اثر بھی اہم تھا۔

’بازنطینی سائفنز کا محض نظر آنا بھی دشمن جہاز کے عملے میں خوف و ہراس کا باعث بن جاتا، جس سے جہاز آگ لگنے سے پہلے ہی بد نظمی پھیل جاتی۔‘

جب یہ مرکب پھینکا جاتا تو پانی کے ساتھ رابطے میں آنے پر یہ بھڑک اٹھتا اور اس سے ایک نہ بجھنے والی آگ پیدا ہوتی۔ چھٹی صدی کے بازنطینی مورخ تھیوفینس کے مطابق یونانی آگ کے ڈرامائی اثر اور اسے چھڑکنے کے طریقے سے ’دشمن دہشت سے لرز اٹھتے۔‘

مورخ اینا کومنینے اپنی کتاب الیکسیاڈ میں یونانی آگ کا بیان یوں کرتی ہیں: ’یہ آگ کانسی کی بنی تنگ منھ والی ایک ٹیوب کے ذریعے پھینکی جاتی اور اسے ایک بتی سے روشن کیا جاتا … یہ لکڑی کو پکڑ لیتی اور اسےتب تک جلاتی ہے جب تک کہ یہ راکھ نہ ہو جائے۔‘

لکڑی تو لکڑی دشمن کے جہاز پر موجود کوئی بھی چیز جس پر یہ مائع پڑتا اسے فوری آگ لگ جاتی۔ اس آگ کو بجھانے کا بھی کوئی طریقہ نہیں تھا کیونکہ پانی کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ بلکہ پانی پر اور پانی سے یہ اور بھڑکتی۔

اسی وجہ سے یہ خفیہ ہتھیار خاص طور پر خوفناک تھا۔

Greek fire
Getty Images

مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات

سنہ 673 سے قبل مسلم افواج بازنطینی سلطنت کے مقابلے میں اہم کامیابیاں حاصل کر چکی تھیں۔

ہیو کینیڈی نے اپنی کتاب ’عظیم عرب فتوحات‘ میں لکھا ہے کہ ’تیزی سے پھیلتی عرب خلافت میں لیونٹ اور مصر سمیت بازنطینی علاقوں کے بڑے حصے فتح ہو چکے تھے۔ سنہ 636 میں یرموک کی جنگ میں عربوں نے شام اور فلسطین فتح کیے۔

سنہ 642 میں سقوطِ سکندریہ مصر میں بازنطینی حکمرانی کے خاتمے کا نشان بنا۔ یہ ابتدائی فتوحات خلفائے راشدین کی متحرک قیادت اور خالد بن الولید جیسے کمانڈروں کی عسکری صلاحیتوںکے باعث ہوئیں۔‘

بروس ہیڈٹ نے لکھا ہے کہ سنہ 634 میں خلیفہ حضرت عمر نے شام پر حملہ کیا۔ اسی سال بازنطینی فوج کو اجنادین میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دمشق 635 میں فتح ہوا، اس کے بعد یروشلم اور انطاکیہمیں کامیابی حاصلہوئی۔ شام کی آخری باقیات نے 636 میں سر تسلیم خم کر لیا۔

مسلمانوں کی پیش قدمی ایشیا کوچک اور افریقہ تک جاری رہی۔ سیرینیکا، طرابلس، آرمینیا، قبرص اور روڈس سب سنہ654 تک مسلمانوں کے زیرِ نگین ہو چکے تھے۔

لیکن پھر۔۔۔یونانی آگ نے بازنطینی بحری غلبے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

ساتویں اور آٹھویں صدی کی عرب بازنطینی جنگوں میں یونانی آگ ہی فیصلہ کن رہی۔

اموی افواج کے قسطنطنیہ کے پہلے محاصرے (674-678 عیسوی) کو یونانی آگ ہی نے ناکام بنایا۔ بازنطینی بحریہ یہ آگ پھینکتی، دشمن کے جہاز جلاٹھتے اور خوف و ہراس پھیل جاتا۔

تاریخ نگار مائیکل شامی بیان کرتے ہیں کہ کیسے عرب ’بظاہر سمندر سے نکلتے ان شعلوں سے حیران اور خوفزدہ ہوتے۔‘

یہ دہشت کسی ایک جنگ تک محدود نہیں تھی۔ یہ ہتھیار سنہ 717-718 میں دوسرے عرب محاصرےسمیت بعد کی بحری جنگوں میں بھی ایک مستقل خطرہ رہا۔

عربوں نے یونانی آگ کا توڑ کیسے نکالا؟

تاہم عرب بھی بے وسیلہ نہیں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے یونانی آگ کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرلی۔

ایک طریقہ جہازوں کو غیر آتش گیر اشیا جیسے بھیگی ہوئی کھالوں سے ڈھانپنا تھا۔ یہ آگ لگانے والے ہتھیاروں سے کچھ تحفظ فراہم کرتی تھیں۔

اس کے علاوہ عرب شعلے بجھانے کے لیے ریت اور سرکے کا استعمال کرنے لگے۔ یوںآگ کے تباہ کن اثرات کو کم کیا گیا۔

جان ہالڈن اپنی کتاب ’وارفیئر، سٹیٹ اینڈ سوسائٹی ان دی بائزینٹائن ورلڈ‘ (بازنطینی دنیا میں جنگ، ریاست اور معاشرہ، 565-1204) میں وضاحت کرتے ہیں عربوں نے یونانی آگ کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کیسے ’اپنے بحری جہازوں کو فیلٹ (ایک کپڑا جس سے ہیٹ بھی بنتے ہیں) اور آگ سے بچانے والے دیگر مواد سے ڈھانپنا‘ سیکھا۔

بعض مواقع پر عربوں نے بازنطینی بحری جہازوں سے زیادہ فاصلہ برقرار رکھ کر بھی خود کو یونانی آگ سے بچایا۔ فاصلے کے باعث پھینکی گئی آگ ویسی موثر نہ رہتی۔

Greek fire
Getty Images

یونانی آگ کی ناکامی کی مثالیں

اپنی خوفناک شہرت کے باوجود یونانی آگ ناقابلِ شکست بھی نہیں تھی۔ ایسی مثالیں بھی ہیں جب یہ بازنطینیوں کو فتح دلانے میں ناکام رہی۔

سنہ 904 میں تھیسالونیکا کے محاصرے میں یونانی آگ کے استعمال کے باوجود ساراسنز یعنی شام کے صحرائی خانہ بدوشوں کا بیڑا شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا۔

اس واقعےسے یونانی آگ کی حدود نمایاں ہوئیں، خاص طور پر جب دشمن تیز اور مربوط حملے کرتا تواس ہتھیار کا استعمال ممکن نہ رہتا۔

جان پرائر بازنطینی بحریہ کے پہلے 700 سالوں پر لکھی اپنی ایک کتاب میں بتاتے ہیں کہ کیسے یہ خانہ بدوش اپنی حکمتِ عملی سے یونانی آگ کے حامل، بازنظینی دفاع کو توڑنے میں کامیاب رہے۔

مَسلَمہ بن عبد الملک کی قیادت میں عرب 717-718 میں قسطنطنیہ کے دوسرے محاصرے کے موقع پر شہر کا زمینی اور سمندری راستہ کاٹنے میں کامیاب رہے اور بازنطینیوں کی طرف سے یونانی آگ کے استعمال کے باوجود عرب بحریہ مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی۔

والٹر کیگی کی کتاب ’بازنطیم (قسطنطنیہ کا پرانا نام) اور ابتدائی اسلامی فتوحات‘ میں یہ واقعہ کچھ اس طرح تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

’عرب بحری بیڑا خوفناک یونانی آگ کا نشانہ بننے کے باوجود طویل عرصے تکشہر کی ناکا بندی برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، جس سے عرب ملاحوں کی ہمتاور بعض حالات میں یونانی آگ کی حدود دونوں کا مظاہرہ ہوا۔‘

پارٹنگٹن عربوں کے جوابی اقدامات کو یوں بیان کرتے ہیں ’عربوں نے جلد ہی اپنے جہازوں کو سرکے میں بھیگے ہوئے فیلٹ سے ڈھانپ کر محفوظ کرنا سیکھ لیا۔یہ آگ سے بچاتا۔‘

البتہ بازنطینیوں کے دیگر دشمن کبھی ایسا نہیں کر پائے۔

سنہ 941 میں بازنطینی سلطنت کو پرنس ایگور کی قیادت میں کیوان روس کے بحری حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

پرائمری کرانیکل کے مطابق جیسے ہی روس کا بحری بیڑا گولڈن ہارن میں داخل ہوا سائفن سے لیس بازنطینی بحری جہازوں نے یونانی آگ پھینکنا شروع کر دی۔

کریمونا کے لیوٹ پرانڈ، اینٹاپوڈوسس نے اس بازنطینی جنگ کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’یونانیوں نے چاروں طرف آگ بھڑکا دی اور روسیوں نے شعلوں کو دیکھ کر جلدی سے اپنے جہازوں سے پانی میں چھلانگیں لگا دیں۔ آگ میں زندہ جلنے کی بجائے انھوں نے پانی میں ڈوبنے کو ترجیح دی۔‘

روس کو بھاری جانی نقصان ہوا اور بہت سے بحری جہاز تباہ ہو گئے۔ یونانی آگ کے اس استعمال نے قسطنطنیہ کو روس کے حملے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

greek fire
Getty Images

یونانی آگ اور عثمانی

یونانی آگ کا استعمال صدیوں تک جاری رہا، لیکن 1453 میں عثمانیوں کو اپنی پیش قدمی اور قسطنطنیہ کی فتح میں اپنی اصل شکل میں کبھی یونانی آگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سٹیون رنسیمین لکھتے ہیں کہ عثمانیوں نے قسطنطنیہ کی دیواریں توڑنے کے لیے بڑی توپیں استعمال کیں، جو آگ لگانے والے کسی بھی ہتھیار سے زیادہ فیصلہ کن ثابت ہوئیں۔

سقوطِ قسطنطنیہ پر اپنی کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ عثمانیوں نے توپیں استعمالکرکے یونانی آگ کے کسی بھی ممکنہ استعمال کو زیر کر دیا۔ ’یہ محاصرے کی جنگ میں ایک نئے دور کا اشارہ تھا۔‘

ایک دور کا خاتمہ

قرون وسطیٰ کے آخر تک بارود نے جنگ میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ یوں بہت سے پرانے ہتھیار متروک ہو گئے تھے۔ جیسے ہی بازنطینی سلطنت اندرونی کشمکش اور بیرونی دباؤ کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو ئی، یونانی آگ کے راز اس کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔

یونانی آگ کا آخری استعمال 12ویں صدی میں الیکسیوس کومنینوس کے دور میں ہوا ۔

جیسے جیسے بازنطینی سلطنت کے وسائل کم ہوتے گئے اور اس کے علاقے سکڑتے گئے ایسے ہتھیاروں کی پیداوار ممکن نہ رہی۔

ہالڈن کے مطابق یونانی آگ کا قطعی فارمولا اور اسے پھینکنے کے طریقے محفوظ راز تھے۔

بازنطینیوں نے مؤثر طریقے سے یہ علم اگلی نسلوں میں منتقل نہیں کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ علم ختم ہو گیا اور یوں ایک فوجی اثاثے کے طور پر یونانی آگ کا خاتمہ ہو گیا۔

یونانی آگ نے ایک زمانے میں ایک سلطنت کو کئی بار تباہی سے بچایا تھا۔ لیکن کئی صدیاں گزرنے کے بعد اب تک یہ معلوم نہیں ہو پایا کہ یہ بنتی کیسے تھی!


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.