تالاب میں نہانے کے بعد ’دماغ کھانے والے امیبا‘ کی جان لیوا بیماری میں مبتلا افنان اس سے کیسے بچے

سوشل میڈیا پر عوامی بیداری مہم نے انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ بچے کو دماغ کھانے والے امیبا سے بچنے والا دنیا کا نواں شخص بنا دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر عوامی بیداری مہم نے انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ بچے کو دماغ کھانے والے امیبا سے بچنے والا دنیا کا نواں شخص بنا دیا ہے۔

کیرالہ کے کوزی کوڈ ہسپتال میں 22 دنوں تک رہنے کے بعد افنان جاسم اب صحتیاب ہو کر اپنے گھر آ گئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ بیماری کا جلد پتا لگنا تھا۔

یہ سب سے بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے باقی آٹھ افراد بھی اس مہلک بیماری سے بچ گئے۔ اس بیماری کو پرائمری ایمیبک میننجوئنسفلائٹس (پی اے ایم) کہا جاتا ہے۔

پی اے ایم نامی بیماری کی وجہ نگلیریا فاولیری نامی امیبا ہے اور اس کی زد میں آنے والوں کی شرح اموات تقریباً 97 فیصد ہے۔

یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کی طرف سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق سنہ 1971 سے 2023 کے درمیان آسٹریلیا، امریکہ، میکسیکو اور پاکستان جیسے چار ممالک میں صرف آٹھ افراد اس مہلک بیماری سے بچ پائے ہیں۔ یہ اس وقت ممکن ہو سکا جب 9 گھنٹے سے پانچ دن کے اندر بیماری کا پتہ چل گیا۔

سر میں درد کے بعد افنان کو دورے پڑنے لگے جس سے اس کے گھر والے پریشان ہو گئے۔ علاج کے پہلے دو دن تک افنان دورے کے بعد والی حالت میں پڑا رہا۔

کوزی کوڈ کے بے بی میموریل ہسپتال میں کنسلٹنٹ پیڈیاٹرک انٹینسیوسٹ ڈاکٹر عبدالرؤف نے بی بی سی کو بتایا: ’جب تک افنان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا، اس وقت تک کیرالہ میں تین اموات ہو چکی تھیں۔ ان میں سے دو کیسز بہت بعد میں ریفر کیے گئے۔ اس کے بعد ہم نے حکومت کو آگاہ کیا کہ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے آگاہی مہم شروع کی جانی چاہیے۔‘

ڈاکٹر رؤف افنان کے والد ایم کے صدیقی کو صحیح وقت پر افنان کا علاج کرنے کا پورا کریڈٹ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بتایا تھا کہ کچھ دن پہلے ان کا بیٹا کوزی کوڈ ضلع کی پاولی میونسپلٹی کے تحت ٹک کوٹی گاؤں میں ایک تالاب میں تیرنے گیا تھا۔

جانور پالنے کے شعبے سے وابستہ 46 سالہ صدیقی نے بی بی سی کو بتایا: ’میں سوشل میڈیا پر نپاہ وائرس کی علامات کے بارے میں پڑھ رہا تھا، تب مجھے امیبا بیکٹیریا کے بارے میں معلوم ہوا۔ میں نے انفیکشن کی وجہ سے ہونے والے دوروں کے بارے میں پڑھا۔ جیسے ہی افنان کو دورے پڑنے لگے، میں اسے وڈاکرا کے ایک اور ہسپتال لے گیا، لیکن انھوں نے اسے بے بی میموریل ہسپتال ریفر کر دیا۔'

افنان کے والد نے بتایا کہ 'میں ڈاکٹر سے جاننا چاہتا تھا کہ اسے دورے کیوں آتے ہیں، کیوں کہ اسے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا، اسی لیے میں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ پانچ دن پہلے تالاب میں تیراکی کے لیے گیا تھا، جس کے بعد اسے درد ہونے لگا اور پھر بخار ہوا۔'

امیبا دماغ تک کیسے پہنچتا ہے؟

این فاولیری امیبا انسانی جسم میں ناک کے ذریعے داخل ہوتا ہے اور یہاں سے دماغ کے نیچے موجود کربریفارم پلیٹ کے ذریعے دماغ تک پہنچتا ہے۔

ڈاکٹر رؤف کا کہنا ہے کہ 'یہ ایک طفیلی (مخلوق) ہے جو مختلف کیمیکل خارج کرتا ہے اور دماغ کو تباہ کر دیتا ہے۔'

اس کی اہم علامات میں بخار، شدید سر درد، گلے میں اکڑن، بے ہوشی، دورے اور کوما میں جانا شامل ہیں۔ زیادہ تر مریض کھوپڑی میں زیادہ دباؤ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

ڈاکٹر رؤف نے کہا کہ 'یہ تازہ پانی کی جھیلوں میں پایا جاتا ہے، خاص طور پر گرم پانی کی جھیلوں میں۔ لوگوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ پانی میں چھلانگ یا غوطہ نہیں لگائیں کیونکہ اسی ذریعے سے امیبا جسم میں داخل ہوتا ہے۔

'اگر پانی آلودہ ہو تو امیبا آپ کی ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے۔ پانی کے آلودہ زخائر سے دور رہنا ہی بہتر ہے اور سوئمنگ پولز یا تیراکوں کو بھی اپنا منہ پانی سے اوپر رکھنا چاہیے۔ پانی میں کلورین ملانا انتہائی ضروری ہے۔'

لیکن کرناٹک کے منگلورو میں کستوربا میڈیکل کالج کے ذریعے جاری کردہ ایک تحقیقی مقالے میں این فاولیری امیبا انفیکشن کے کیسز کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جو نائیجیریا اور منگلورو کے پانی کے ذرائع میں ملا ہوا تھا۔ یہاں کے نہانے کا پانی بھی اس بیماری کا ذریعہ تھا۔

امریکہ کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن میں اپریل 2024 میں پاکستان کی ایک ٹیم کے شائع کردہ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق اس بیماری سے بچ جانے والوں کی عمریں نو سال سے 25 سال کے درمیان ہیں۔

اس کا علاج کیا ہے؟

ڈاکٹر رؤف نے کہا: 'اب تک دنیا بھر میں پی اے ایم کے 400 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ ہندوستان میں اب تک 30 کیسز سامنے آئے ہیں۔ سنہ 2018 اور 2020 میں کیرالہ میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا تھا جبکہ رواں سال اب تک پانچ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔'

افنان کے معاملے میں ڈاکٹروں نے علامات کے شروع ہونے کے 24 گھنٹوں کے اندر لمبر ٹریٹمنٹ اور اینٹی مائکروبیل دوائیوں (ایمفوٹیریسن بی، رفیمپین اور ایزیتھرومائسن) کا استعمال کیا۔

وہ بتاتے ہیں: 'ہم نے پی سی آر (پولیمریز چین ری ایکشن) کیا تاکہ مریض کے دماغی سپائنل فلوئڈ (سی ایس ایف)میں این فاولیری کا پتہ لگایا جا سکے۔'

وہ کہتے ہیں: 'ہم نے اسے ملٹی فوسین دی، جو پہلے حاصل کرنا مشکل تھا۔ جب ایسے کیسز سامنے آنے لگے تو حکومت نے اسے جرمنی سے درآمد کیا۔ یہ دوا انڈیا میں نایاب بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن یہ بہت مہنگی ہے اور درون ملک دستیاب نہیں ہے۔'

ڈاکٹر رؤف کہتے ہیں: 'پہلے دن، مریض دورے کی وجہ سے زیادہ ہوش میں نہیں تھا، تین دن کے اندر، افنان کی حالت میں بہتری آنے لگی اور ایک ہفتے کے بعد ہم نے دوبارہ لمبر پنکچر کا سہارا لیا اور نمونے کا نتیجہ منفی آیا۔ اسے ایک کمرے میں منتقل کیا اور علاج جاری رکھا۔'

افنان کی دوا اگلے ایک ماہ تک جاری رہے گی۔ فی الحال وہ گھر پر آرام کر رہا ہے اور اپنی 10ویں جماعت کی تعلیم جاری رکھنے کی امید کر رہا ہے۔

افنان کے والد نے بی بی سی کو اپنے بیٹے کی ایک دلچسپ کہانی سنائی۔

صدیقی نے ہنستے ہوئے کہا: 'ڈاکٹرز نے ان سے پوچھا کہ وہ مستقبل میں کیا پڑھنا چاہتے ہیں تو افنان نے بتایا کہ وہ نرسنگ میں ڈگری حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہسپتالوں میں نرسوں کے کام سے بہت متاثر ہوا ہے۔ اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ نرسیں اپنے مریضوں کے لیے سخت محنت کرتی ہیں۔'


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.