ڈارون نامی مینڈک کی اُلٹ پُلٹ سیکس لائف جس نے سائنسدانوں کی دلچسپی حاصل کی

ایک نئی تحقیق میں مینڈکوں کی ایک قسم کا پتہ چلا ہے جو اپنے انڈے الٹے ہو کر دیتے ہیں۔ میڈک کی یہ نادر قسم انڈیا کے مشرقی ساحل پر سمندر میں پھیلے ہوئے انڈمان کے جزیروں میں ملی ہے۔
چارلس ڈارون مینڈک
BBC
معروف سائنسدان چارلس ڈارون کے نام پر موسوم مینڈک انڈمان کے چند جزیروں تک ہی محدود ہے

ایک نئی تحقیق میں مینڈکوں کی ایک ایسی قسم کا پتا چلا ہے جو اپنے انڈے الٹے ہو کر دیتے ہیں۔ میڈک کی یہ نادر قسم انڈیا کے مشرقی ساحل پر سمندر میں پھیلے ہوئے انڈمان کے جزیروں میں ملی ہے۔

انڈیا اور امریکہ کے سائنسدانوں نے اپنے مقالے میں بتایا ہے کہ چارلس ڈارون نامی مینڈک کی اس قسم کے نر اور مادہ دونوں اپنے آپ کو کھوکھلے درختوں کے گڑھوں میں الٹے رہ کر جنسی عمل کرتے ہیں۔ اس حالت میں ان کے جسم مکمل طور پر پانی سے باہر ہوتے ہیں اور ان کے تازہ تازہ انڈے سے نکلنے والے بچے پانی میں گرتے ہیں اور اسی طرح نشوونما پاتے ہیں۔

دہلی یونیورسٹی کے محقق ایس ڈی بیجو ہارورڈ ریڈکلف انسٹی ٹیوٹ کے فیلو ہیں۔ وہ کہتے 'یہ قابل ذکر ہے کیونکہ مینڈک میں الٹے ہو کر انڈے، بچے دینا سب سے منفرد طرز عمل ہے۔ اب تک ایسا کوئی دوسرا مینڈک نظر نہیں آیا ہے جو درختوں کے سوراخوں کی اندرونی دیواروں پر انڈے دیتا ہو اور اس کا جسم مکمل طور پر پانی سے باہر ہوتا ہو۔‘

'یہ دریافت اس بات کو سمجھنے کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ مینڈک کی یہ قسم اپنے ماحول کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہوتی ہے اور کون سی رہائش گاہیں اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔'

دنیا کی تقریباً تمام 7,708 مینڈک کی انواع پانی اور دیگر زمینی رہائش گاہوں میں سیکس کرتی ہیں اور انڈے بچے دیتی ہیں۔ وہ بیرونی فرٹیلائزیشن کا بھی استعمال کرتے ہیں جس میں مادہ سیکس کے دوران انڈے دیتی ہے جبکہ نر ان کی زرخیزی کے لیے مادہ منویہ خارج کرتا ہے۔

انڈمان جزائر
Getty Images
انڈمان جزائر کے ٹراپیکل بارشی جنگلات چارلس ڈارون مینڈک کا گھر ہیں

دہلی یونیورسٹی، زولوجیکل سروے آف انڈیا، ہارورڈ یونیورسٹی اور مینیسوٹا یونیورسٹی پر مبنی انڈین اور امریکی ماہرین حیاتیات کی ایک ٹیم نے مون سون کی بارشوں کے دوران تین سالوں کے دوران انڈمان کے دور دراز جزائر پر 55 راتوں تک ان چھوٹے چارلس ڈارون مینڈکوں کے خفیہ تولیدی رویے کا مطالعہ کرنے کے لیے ان کی نگرانی کی۔ ان کا تحقیقی مطالعہ سائنسی جریدے بریویورا کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔

اس مینڈک کی انفرادیت بس اتنی نہیں ہے کہ وہ سیکس کیسے کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے سیکس کی خواہشات کے اظہار کے لیے بھی مختلف آواز نکالتے ہیں۔

جنسی عمل کے لیے مینڈک کی زیادہ تر آوازیں سادہ، سنگل قسم کی میٹنگ کالز ہوتی ہیں جبکہ مینڈک کی بعض انواع میں مختلف اقسام کی پیچیدہ کالیں ہوتی ہیں۔

محققین نے پایا کہ سیکس کے جنون میں چارلس ڈارون نامی مینڈک کے پُرعزم نر اپنی مادہ کو راغب کرنے کے لیے تین قسم کی 'پیچیدہ' آوازیں نکالتے ہیں۔

جب نروں کی 'جارحانہ' آوازیں مقابلے میں شامل نروں کو روکنے میں ناکام ہوجاتی ہیں تو وہ لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ اس دوران ایک دوسرے کو لات اور ہاتھ مارتے ہیں یعنی ہاتھوں اور ٹانگوں دونوں کا استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کے جسم پر کاٹتے ہیں یہاں تک کہ پورے سر کو بھی دبوچ لیتے ہیں۔

اگر کوئی نر کامیابی کے ساتھ کسی مادہ کے پاس پہنچ جاتا ہے تو دوسرے نر سیکس کرنے والے جوڑے سے لڑ سکتے ہیں۔ محققین نے پایا کہ وہ ان کو الگ کرنے کے لیے جوڑے کے جسموں کے درمیان اپنا سر ڈالنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے مسٹر بیجو کہتے ہیں: ’ہمارے مشاہدے میں یہ لڑائیاں شاذ و نادر ہی موت کا باعث بنیں۔ (مینڈک کی) اس قسم میں پائی جانے والی جارحیت کی حد حیران کن تھی کیونکہ یہ جسم کے بعض حصے کو نوچ لیتے ہیں، یہاں تک کہ پورے سر کو طویل عرصے تک دبوچے رکھتے ہیں۔'

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی 'تمام لڑائیاں بارش کے پانی والے درخت کے کھوکھلے حصے کے اندر والی دیوار پر ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسری انواع کے مینڈکوں میں یہ لڑائیاں کھلے پانی کے وسیع ذخائر میں ہوتی ہیں'

محققین
BBC
ماہرین حیاتیات نے چارلس ڈارون مینڈکوں کے رویے کا مطالعہ کرنے کے لیے جزائر میں 55 راتوں تک ڈیرے ڈالے

مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ الٹی حالت میں سیکس کا یہ رویہ اس لیے پیدا ہوا کہ سیکس کے دوران ایک جوڑا دوسرے مینڈکوں کو انڈے دینے میں خلل ڈالنے سے روک سکے۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے جیمز ہینکن بھی اس تحقیق کا حصہ تھے۔ وہ کہتے ہیں: 'یہ دریافت امفیبیئنز (خشکی اور تری دونوں میں رہنے والے جاندار) اور تولیدی رویوں کے قابل ذکر تنوع کی ایک مثال ہے جو سائنس کے لیے ابھی تک نامعلوم ہیں، خاص طور پر ٹراپیکل ایشیا کے حیاتیاتی تنوع کے غیر دریافت شدہ علاقوں میں۔'

چارلس ڈارون مینڈک جسے مشہور ماہر فطرت کے نام سے منسوب کیا گیا ہے انڈمان کے جزائر کے چند جزیروں کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا جاتا۔ یہ مینڈک غیر معمولی اور مخصوص جنگلاتی رہائش گاہوں تک ہی محدود ہیں۔ ان کی بکھری ہوئی آبادی اور رہائش میں مسلسل کمی کی وجہ سے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نے اسے 'خطرے سے دوچار'کے طور پر درج کیا ہے۔

سائنسدانوں نے ان مینڈکوں میں افزائش نسل کا مشاہدہ چھیڑ چھاڑ کیے جانے والے جنگلوں کے مصنوعی مقامات پر کیا۔ جنگل کے آس پاس کی پودوں کی نرسریوں میں پانی سے بھرے پلاسٹک کے تھیلے سے لے کر بارش سے بھرے ضائع شدہ کنٹینرز تک میں ان کا مشاہدہ کیا۔ یہ وہ کنٹینرز ہیں جو لوگ جنگل کے کنارے پر کوڑے دان کے طور پر چھوڑے جاتے ہیں۔

اس تحقیق کی شریک سربراہی کرنے والی ہارورڈ یونیورسٹی کی فیلو سونالی گرگ کہتی ہیں: 'مینڈکوں کا افزائش نسل کے لیے ردی کی ٹوکری کا استعمال حیران کن اور پریشان کن ہے۔ ہمیں اب اس کی وجوہات اور طویل مدتی نتائج کو جاننے کی ضرورت ہے، اور ان کے قدرتی افزائش کے مقامات کی حفاظت کے لیے طریقے وضع کرنے کی ضرورت ہے جو کہ اس قسم(کے مینڈک) کی بقا کے لیے اہم ہیں۔'

محققین کا کہنا ہے کہ رہائش گاہ کے نقصان اور محدود وسائل کے لیے مسابقت کی وجہ سے افزائش نسل کی مناسب جگہوں کی کمی مینڈک کو ایسی غیر فطری جگہوں پر افزائش نسل پر مجبور کر رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.